• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب بھلا کیا مانیں، عمران کا بیان یا سرکار کا ریکارڈ؟

اسلام آباد (قاسم عباسی)…عمران خان کا دعویٰ ہے کہ انہیں بزنس ٹائیکون کی جانب سے 450 کنال اراضی کا عطیہ دسمبر 2018 میں ملا جبکہ القادر انسٹی ٹیوٹ کی لانچنگ تو مئی 2019 میں ہوئی تھی ۔ یہ بات سرکاری ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتی ۔اگر سرکاری ریکارڈ اور اسٹامپ پیپر پر یقین کیاجائے تو اس 20 دسمبر 2019 سےپہلے سرکاری ریکارڈ میں القادر ٹرسٹ کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔

 القادر ٹرسٹ کےریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ القادر پروجیکٹ کے بورڈ کا پہلا اجلاس مئی 2019 میں ہوا تھا اور اسی اجلاس میں عمران خان کو ٹرسٹ کا چیئر مین اور ایک اور دیگر ٹرسٹیز( جن میں بابر اعوان، بشریٰ خان اور ذلفی بخاری تھے) کے ساتھ ایک اور ٹرسٹی مقررکیاگیا تھا تاہم ٹرسٹ 26 دسمبر 2019 کواسلام آباد کے سب رجسٹرار کے آفس میں بابر اعوان نے رجسٹر کرایا تھا۔

یہاں اس امر کا تذکرہ کرنا بیجا نہ ہوگا کہ این سی اے اور بزنس ٹائیکون کے مابین سمجھوتے کے تحت 190 ملین پاؤنڈ لینے کا معاملہ عمران خان نے دسمبرمیں کابینہ کے سامنے پیش کیا تھا اور یہ وقت القادر ٹرسٹ کی رجسٹریشن سے تین ہفتے پہلے کا ہے۔

عطیہ دہندہ اور بشریٰ خان کے مابین ہونے والے سمجھوتے کے مطابق 24 مارچ 2021 کو بنی گالہ ہاؤس میں عمران خان کے گھر میں ہوا۔ اس عطیہ دہندہ نے اپریل 2019 میں یہ زمین خریدکر ذلفی بخاری کے نام اس انڈراسٹینڈنگ کے ساتھ منتقل کر دی کہ بعد میں جب یہ ٹرسٹ بن جائے گا تو یہ اسے ٹرانسفر کردی جائے گی ۔

دلچسپ امریہ ہے کہ عطیہ دہندہ نے سمجھوتے میں کہا ہے کہ ٹرسٹ کو انہوں نے مارچ 2019 سے قبل کوئی فنڈز نہیں دیے۔

 پیر کو ٹوئٹر پر القادر ٹرسٹ کیس کی وضاحت کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ بزنس ٹائیکون ایک اسپانسر کے طور پر ان کے پاس آیا اور دسمبر 2018 میں اس نے یہ جگہ عطیہ کی ۔

عمران خان نے مزید کہا کہ مئی 2019 میں انہوں نے ٹرسٹ کےلیے گراؤنڈ بریکنگ تقریب کا انعقاد کیا جبکہ این سی اے اور اور بزنس ٹائیکون کے ما بین 190 ملین پاؤنڈ کا معاہدہ دسمبر 2019 کو کابینہ کے سامنے آیا۔

 اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے خان نے کہا کہ یہ بزنس ٹائکون اور این سی اے کے مابین طے پانے والا ایک خفیہ سمجھوتہ تھا اور کابینہ کو این سی اے نے دو آپشن دیے تھے یا سمجھوتے کے خفیہ رہنے پر اتفاق کریں اور 190 ملین پاؤنڈ سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ میں منتقل کردیاجائے جو عطیہ دہندہ پر جرمانے کے حوالے سے بنایا گیا تھا اور دوسری صورت یہ تھی کہ اس فیصلے کو چیلنج کیاجائے اور عدالت میں ثابت کیاجائے کہ اس کالے دھن کو سفید کیا گیا ہے۔

یہاں یہ تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ عمران خان نے انکشاف کیا کہ بزنس ٹائیکون سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں پیسے جمع کرانا چاہتا تھا۔ تاہم خان نے دوسرے آپشن کے حوالے سے کہا کہ اس طرح برطانوی عدالتوں میں مزید پانچ سے چھ سال صرف ہونا تھا اور اس مقدمے بازی پر لاکھوں روپے خرچ ہونے والے تھے چنانچہ تین دسمبر کو کابینہ نے فیصلہ کیا کہ ا س رقم کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کرادیا جائے یہ سوچتے ہوئے کہ اتنی بڑی رقم اس سے پہلے کبھی پاکستان نہیں آئی۔ادھر القادرپروجیکٹ اور بزنس ٹائیکون کے عطیہ کا سمجھوتہ ایک دوسری کہانی سنا رہا ہے۔

القادر ٹرسٹ کے حوالے سے پہلا اجلاس مئی 2019 میں ہوا تھا اور اس کے منٹس سے پتہ چلتا ہے کہ اس اجلاس میں عمران خان کو ٹرسٹ کا چیئر پرسن بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جبکہ بابر اعوان کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس ٹرسٹ کے قیام کی دستاویزات جمع کرائیں۔

 اس اجلاس میں بشریٰ خان اور ذوالفقا ر عباسی بخاری بھی میٹنگ کا حصہ تھے ۔26 دسمبر 2019 کو ایک ٹرسٹ ڈیڈ رجسٹرار آفس میں رجسٹر ہوتی ہے اور اس کا نام القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ہوتا ہے۔ اس کا رجسٹرڈ آفس ہاؤس نمبر 3 اسٹریٹ نمبر 56 سیکٹر ایف 8/4 میں بتایا گیا۔

اس ٹرسٹ ڈیڈ کے گواہوں میں عمران خان ، بشریٰ خان، ذوالفقار عباسی بخاری اور ظہیر الدین بابر اعوان شامل تھے۔ 22اپریل 2020 کو القادرٹرسٹ نے سب رجسٹرار ڈسٹرکٹ کورٹ اسلام آباد کو ’ٹرسٹیز کے ناموں کی خاتمے‘ کا لکھتے ہوئے 26 دسمبر 2019 کی ڈیڈ کا حوالہ دیا اورکہا کہ ’’ آ پ کی اطلاع اور ریکارڈ کےلیے عرض کی جاتی ہے کہ مندرجہ ذیل ٹرسٹیز مسٹر ظہرالدین بابر اعوان اور ذوالفقار عباس بخاری کے نام ٹرسٹیز سے نکال دیے جائیں۔ ‘‘25 اپریل 2020 کی ٹرسٹ ڈیڈ القادر یونیورسٹی پراجیکٹ کی ترمیم شدہ دستاویز ہے اور اس میں لکھا گیا ہے کہ ’’ یہ ٹرسٹ ڈیڈ25 اپریل 2020 کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے چئیر پرسن عمران خان سکنہ بنی گالہ اسلام آباد نے اسلام آباد میں بنائی۔

 اس نئی ٹرسٹ ڈیڈ میں عمران خان نے خود ایک مرتبہ پھر 26 دسمبر 2019 کی ڈیڈ لائن کا حوالہ دیا اور اس میں کہا گیا ہے کہ ٹرسٹ کے چیئر پرسن نے پچھلی ٹرسٹ ڈیڈ کی شق 12 کے تحت ٹرسٹ ڈیڈ میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے اور بابر اعوان اور ذوالفقارعباس بخاری کا نام ٹرسٹیز سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔

 اس کے علاوہ ٹرسٹ کا دفتر بھی پچھلی جگہ سے ٹرسٹ کے چیئر پرسن عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ منتقل کردیا گیا۔ اس ترمیم شدہ ٹرسٹ ڈیڈ پر عمران خان کے دستخط اسے چلانے والے کی حیثیت سے ثبت ہیں۔

 22 جنوری 2021 کو ذلفی بخاری نے زمین القادر ٹرسٹ پروجیکٹ کو منتقل کردی۔ اسٹامپ ڈیوٹی کے مقصد سے زمین کی قیمت 24 کروڑ 39 لاکھ 72 ہزار 300 روپے مقرر کی گئی اور یہ زمین بزنس ٹائیکون سے 70 کروڑ روپے میں خریدی گئی۔

عطیے کے معاہدے کو تسلیم کرتے ہوئے جس پر بزنس ٹائیکون اور بشریٰ بی بی کے دستخط ہیں اور 24 مارچ 2021 کی تاریخ درج ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ تقریبا 460 کنال اراضی اپریل 2019 میں بزنس ٹائیکون سے خریدی گئی اور یہ ذوالفقار عباس بخاری کو منتقل کردی گئی کیونکہ اس وقت تک ٹرسٹ قائم نہیں کیا گیا تھا۔

بزنس ٹائیکون نے سمجھوتے میں مزید بتایا کہ اس نے زمین 22 جنوری 2021 کو ذولفقار بخاری سے منتقل کراکے اس مقصد کےلیے دی۔عطیے کا یہ معاہدہ 24 مارچ 2021 کو نافذ العمل ہوا۔

عطیات دہندہ نے تسلیم کیا کہ اس نے القادر یونیورسٹی کے لیے زمین خریدی، عطیات دہندہ نے بتایا کہ کہ نے ایک شخص ذوالفقار علی بخاری کے نام پر موجود زمین القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو 22 جنوری 2021 کومنتقل کرائی ۔

سمجھوتے میں عطیات دہندہ نے القادر پراجیکٹ کےلیے بلڈنگ بنانے پر بھی اتفاق کیا۔ عطیات دہندہ نے یہ تصدیق بھی کی کہ وہ پہلے ہی عمارت کاایک حصہ بنا چکا ہے۔

عطیات دہندہ نے مزید تصدیق کی کہ وہ القادریونیورسٹی بنانے اور اسے چلانے کے تمام اخراجات برداشت کرےگا۔ عطیات دہندہ نے یہ بھی تصدیق کی کہ یہ القادر پراجیکٹ بنانےاور چلانے کے لیے فنڈز کے ساتھ ساتھ زمین، عمارتیں، سہولتیں اور انفراسٹرکچر بھی تعمیر کر کے دے گا۔

 عطیات کے ڈکلیریشن میں ڈونر نے تسلیم کیا کہ اس نے پہلے ہی زمین کی قیمت کی صورت میں 70 کروڑ ادا کردیے ہیں اور اس کے پیچھے ارادہ ٹرسٹ کو چیئرٹی کےلیے دینا تھا۔ ڈونر نے مزید بتایا کہ یہ زمین ابتدائی طور پر اپریل 2019 کو سید ذوالفقار عباس بخاری کے ذریعے القادر ٹرسٹ کو دی گئی کیونکہ اس وقت ٹرسٹ ابھی قیام کے مرحلے میں تھا اور جو اب 26-12-2019 کی ٹرسٹ ڈیڈ کے ذریعے رجسٹر ہوگیا ہے اور جس میں 10-07-2020 کو ترمیم کی گئی ہے یہ زمین بعد ازاں ذلفی بخاری سے 22 جنوری 2021 کو ٹرسٹ کو منتقل کرائی گئی۔ 2 مارچ 2022 کو ٹرسٹ ڈیڈ جس کا عنوان ’ القادر انسٹی ٹیوٹ کےلیے انڈاؤمنٹ فنڈ‘ تھا سب رجسٹرار سوہاول کے آفس میں رجسٹر کی گئی۔

 اس ڈیڈ میں جن ٹرسٹیز کے نام ہیں ان میں بشریٰ خان، فرحت شہزادی اور عارف نذیر بٹ شامل ہیں جبکہ اس ڈیڈ کے مصنف عمران خان ہیں۔

اہم خبریں سے مزید