• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بغیر نوٹس کمیشن کیسے معطل ہوا؟ قواعد کے مطابق فریقین کو سن کر فیصلہ کیا جاتا ہے، جسٹس فائز کمیشن نے سپریم کورٹ فیصلے کے بعد کارروائی روک دی

اسلام آباد ( رپورٹ، رانا مسعود حسین ) وفاقی حکومت کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے بعض ججوں اور دیگر ممتا ز شخصیات سے متعلق قومی میڈیا اور سوشل میڈیا پر لیک ہونے والی ’آڈیو گفتگو‘کی حقیقت جاننے کیلئے تشکیل دیئے گئے تین رکنی جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں مزید تحقیقات روکدی ہیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں کیا گیا تھا توکمیشن معطل کیسے ہوا؟ قواعد کے مطابق فریقین کو سن کر فیصلہ کیا جاتا ہے، آڈیو لیکس پر انکوائری کمیشن قانون کے تحت بنا ، سپریم کورٹ ہائی کورٹس کی نگرانی نہیں کر سکتی، بظاہر فیڈرل ازم کو تباہ کیا گیا، پتہ تو چلے کون آڈیو جاری کر رہا ہے، اصلی ہیں بھی یا نہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی جج پر الزام ہو اسے ایسے ہی چلنے دیں،مجھے کوئی مرضی کے فیصلے کیلئے رقم آفر کرے تو کیا یہ گفتگو بھی پرائیویسی میں آئیگی؟ پرائیویسی صرف گھر کی ہوتی ہے، کیا بینک کے سی سی ٹی وی کیمرے میں قتل کی واردات آجائے تو کیا فوٹیج استعمال نہیں ہوسکتی؟ ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں،کئی بار تکلیف دہ ٹاسک ملتے ہیں، حلف کی وجہ سے عمل کے پابند ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ، جسٹس عامرفاروق اور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل تین رکنی جوڈیشل کمیشن نے ہفتہ کے روز کارروائی کا آغاز کیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سنا ہے کہ عدالت نے کمیشن سے متعلق کوئی حکم نامہ جاری کیا ہے، ہمیں اس حکم نامہ کی کاپی فراہم کریں۔ اٹارنی جنرل نے کاپی عدالت کو فراہم کردی۔کمیشن نے اٹارنی جنرل کو پچھلے روز کا عدالتی حکم پڑھنے کی ہدایت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے استفسار کیا کہ انکوائری کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں تھا تو کام سے کیسے روک دیا گیا ہے ؟ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ بھی کل سپریم کورٹ میں موجود تھے ؟ ، اٹارنی جنرل نے ہاں میں جواب دیا، جسٹس فائز نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو عدالت کی طرف سے نوٹس جاری کیا گیا تھا ؟جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے ٹیلی فون پر عدالت پیش ہونے کا کہا گیا تھا ۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سپریم کورٹ قواعد کے مطابق فریقین کو پیشگی نوٹسز جاری کرنا ہوتے ہیں،سپریم کورٹ رولز کے مطابق فریقین کو سن کر اس کے بعد کوئی حکم جاری کیا جاتا ہے، کمیشن کو کسی بھی درخواست گزار نے نوٹس نہیں بھیجا ہے؟سپریم کورٹ کے رولز ر پر عملدرآمد لازم ہے ۔انھوں نے کہا نوٹس کے حوالے سے بیان حلفی بھی عدالت میں دیا جاتا ہے جبکہ درخواست گزاروں میں سے کوئی بھی آج کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوا ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ باہر پریس کانفرنس کی جاتی ہے لیکن ہمارے سامنے پیش کوئی نہیں ہوا ، نہ عابد زبیری آئے نہ ان کے وکیل شعیب شاہین نے پیش ہونے کی زحمت کی ہے ، اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ نے عدالت کو آگاہ نہیں کیا کہ کمیشن آئین کے آرٹیکل 209 کی کارروائی نہیں کر رہا؟۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ابھی وہ اسٹیج ہی نہیں آئی تھی نہ ہم وہ کر رہے تھے، ایک گواہ اس وقت موجود ہیں، اس دوران جسٹس قاضی فائز نے جنگ جیو کے رپورٹر عبدالقیوم صدیقی کو روسٹرم پر بلا لیا اور ان سے پوچھا کہ آپ کا کیا نام ہے؟تو انہوںنے بتایا کہ میرا نام عبدالقیوم ہے۔جسٹس قاضی فائز نے کہا ہو سکتا ہے کہ انہیں کمیشن کی کارروائی پر کوئی اعتراض نہ ہو، ان کے دوسرے فریق نے ہمیں درخواست بھیجی اور کہا کہ وہ میڈیکل چیک اپ کے لیے لاہور میں ہیں، جب لاہور آئیں تو ان کا بیان بھی لے لیں۔ جسٹس قاضی نے کہا کہ عدالت کو کل ہمارے حکم کے بارے میں آگاہ کیا جانا چاہیے تھا، حیران ہوں آپ نے کل ان نکات کو رد نہیں کیا،تھوڑا بہت آئین میں بھی جانتا ہوں، آپ نے کل عدالت کو بتایا کیوں نہیں کہ ان کے اعتراضات والے نکات کی ہم پہلے ہی وضاحت کر چکے۔ شعیب شاہین نے میڈیا پر تقریریں کر دیں لیکن یہاں آنے کی زحمت نہیں کی۔فاضل جج نے استفسار کیا کہ کیا انہیں آکر بتانا نہیں تھا کہ حکم امتناع جاری ہو گیا۔جسٹس قاضی نے کہا کہ شعیب شاہین نے پچھلے روز کہا تھا کہ کسی کی بھی آڈیو آئے، اس جج کا معاملہ سیدھا سپریم جوڈیشل کونسل بھیج دو۔

اہم خبریں سے مزید