ووسٹر (عمران منور، صائمہ ہارون) پاکستانی لیگ سپن آل راؤنڈر اسامہ میر کا کہنا ہے کہ کاؤنٹی کرکٹ میں کھیلنا ان کی زندگی کا خواب تھا، جو اس وقت پورا ہوا، جب انہوں نے ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ ٹورنامنٹ میں ووسٹر شائر ریپڈز کے ساتھ معاہدہ کیا۔ 27 سالہ اسامہ نے مختصر قیام کے دوران اپنی آل راؤنڈ پرفارمنس سے ووسٹر شائر کاؤنٹی کرکٹ کلب کے گھر نیو روڈ پر سب کو متاثر کیا۔ ووسٹر شائر ریپڈز نے انہیں جاری ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ ٹورنامنٹ کے ابتدائی تین میچوں کیلئے اپنے پورے سیزن کیلئے سائن کیوی کھلاڑی مچل سیٹنیئر کے متبادل کے طور پر سائن کیا تھا جو آئی پی ایل فرنچائز اور حتمی فاتح چنئی سپر کنگز کے ساتھ اپنے وعدے کی وجہ سے دستیاب نہیں تھے۔ اگرچہ انہیں انگلش کنڈیشنز میں کرکٹ کھیلنے کا تجربہ تھا لیکن یہ تجربہ لیگ کرکٹ میں صرف کلب کی سطح پر تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب وہ کسی بھی فارمیٹ میں کاؤنٹی کرکٹ کلب کیلئے کھیل رہے تھے۔ ووسٹر شائر کاؤنٹی کرکٹ کلب کے ساتھ مسابقتی کرکٹ کے اپنے پہلے تجربے کے بارے میں جنگ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اسامہ نے کہا کہ وہ صرف اپنا بہترین کھیل پیش کرنا اور اچھے نتائج دینا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی کارکردگی سے انتہائی خوش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب میں چھوٹا تھا اور انگلینڈ کی کاؤنٹی کرکٹ کے بارے میں سنتا اور پڑھتا تھا کہ یہ کرکٹ دوسرے ملکوں کی کرکٹ سے بہت مختلف ہے تو میں کاؤنٹی کرکٹ میں کھیلنے کا خواب دیکھتا تھا جو اب پورا ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنا بہترین کھیل پیش کرنا چاہتا تھا جو میں نے کیا اور میری کارکردگی واقعی اچھی رہی ہے۔ اسامہ میر، جو پہلے سے ہی انگلینڈ میں ہیں اور کولوئن بے کیلئے سنڈے لیگ کرکٹ کھیل رہے تھے، کو بدھ 24 مئی کو ناٹنگھم شائر سٹیل بیکس کے خلاف ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ میں ان کی مہم شروع ہونے سے پہلے آخری لمحات میں ووسٹر شائر ریپڈز سکواڈ میں شامل کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنے پہلے میچ میں ہی سٹیل بیکس کے خلاف بہت یادگار آؤٹنگ کی، جہاں پہلے انہوں نے صرف 7 گیندوں پر 20 رنز بنائے اور بعد میں اپنی لیگ سپن باؤلنگ کے ذریعے 4 اوورز میں صرف 21 رنز کے عوض 3 وکٹیں حاصل کر کے ان کی بیٹنگ لائن اپ کو متاثر کیا۔ ریپڈز نے یہ میچ 15 رنز سے جیت لیا اور اسامہ، جنہوں نے ان کی فتح میں اہم کردار ادا کیا فوری طور پر ان کیلئے نئے پوسٹر بوائے بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ چاہے بولنگ ہو یا بیٹنگ، جہاں بھی مجھے موقع ملتا ہے، میں ہمیشہ ٹیم کیلئے اچھی اور فاتحانہ کارکردگی دکھانے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے یہاں بھی ایسا ہی کچھ کیا اور نا صرف اچھی بولنگ کی بلکہ بیٹنگ بھی کی۔ اسامہ میر کی شاندار کارکردگی پہلے گیم کے ساتھ ختم ہی نہیں ہوئی بلکہ یارکشائر وائیکنگز کے خلاف ریپڈز کے اگلے میچ میں اسامہ نے وکٹ حاصل نہ کرنے کے باوجود بولنگ کا ایک اور سخت سپیل کیا۔ انہوں نے 4 اوورز میں صرف 24 رنز دیئے۔ ووسٹر شائر نے آخری اوور میں سنسنی خیز مقابلے میں یہ میچ جیت لیا۔ پیر کو دھوپ والے بنک ہالیڈے کے موقع پر ایک بھرے ہوئے سٹیڈیم میں اسامہ نے لیسٹر شائر فاکسز کے خلاف ریپڈز کیلئے اپنا آخری گیم کھیلا اور دوبارہ اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے صرف 15 گیندوں پر 2 چھکوں اور 3 چوکوں کی مدد سے ناقابل شکست 32 رنز بنائے۔ لیسٹر شائر فاکسز میچ میں کامیابی کیلئے 184 رنز کے تعاقب میں صرف 150 ہی بنا سکی اور میچ 34 رنز سے ہار گئی۔ اسامہ نے 4 اوورز میں 33 رنز دے کر 2 وکٹیں حاصل کیں۔ میدان سے باہر نکلتے ہی نیو روڈ پر موجود پانچ ہزار سے زائد تماشائیوں نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا۔ اسامہ میر نے مزید کہا کہ کیونکہ میرا اس کلب کے ساتھ صرف پہلے تین میچوں کا معاہدہ تھا، اس لئے میں نے اپنی اچھی کارکردگی سے ایسا نشان چھوڑنے کی کوشش کی، جس سے کلب کو لگے کہ انہیں مجھے پورے سیزن کیلئے سائن اپ کرنا چاہئے تھا۔ اسامہ میر نے جنگ اور جیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ووسٹر شائر ریپڈز کا پورا سکواڈ میری کارکردگی سے خوش تھا۔ ماحول شان دار تھا اور مجھے ٹیم کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایک لمحے کیلئے بھی میرے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ میں ان کے ساتھ پہلی بار کھیل رہا ہوں۔ مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میں عمروں سے ووسٹر شائر سی سی سی کیلئے کھیل رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح سے مجھے بیک اپ کیا گیا، اس سے مجھے ٹیم کا اعتماد ملا اور میں یقیناًٰ ان کی کمی کو محسوس کروں گا۔ اسامہ میر نے کہا کہ امید ہے کہ مستقبل میں مجھے ووسٹر شائر سی سی سی کی جانب سے کھیلنے کا ایک اور موقع ملے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے سابق کپتان اظہر علی، جو حال ہی میں انٹر نیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہوئے ہیں اور فی الحال ووسٹر شائر سی سی سی کیلئے کھیل رہے ہیں، وہ بھی ریپڈز کے ڈگ آؤٹ میں بیٹھے نوجوان بیٹرز کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ وہ نوجوان اسامہ میر کیلئے بھی بہت مددگار اور متاثر کن رہے ہیں۔ یہ دونوں پاکستان کے ڈومیسٹک سرکٹ میں سینٹرل پنجاب کیلئے بھی کھیلتے ہیں۔ اسامہ میر نے کہا کہ میں اظہر علی کے ساتھ کھیلنے اور ان جیسے لیجنڈ کھلاڑی سے سیکھنے کو اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں خوش قسمت ہوں، جب میں نے ووسٹر شائر میں شمولیت اختیار کی تو اظہر بھائی پہلے ہی ان کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ ان کے پاس پہلے ہی کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے کا کافی تجربہ تھا۔ انہوں نے مجھے کھیل کی حکمت عملیوں کے بارے میں سکھایا اور مجھے اس بارے میں کافی معلومات اور رہنمائی فراہم کی کہ مجھے یہاں کس قسم کی کرکٹ کھیلنے کی ضرورت ہے۔ ووسٹر شائر کے کوچ قدیرعلی کے ساتھ بھی اسامہ میر کے بہت خوشگوار تعلقات ہیں، جو انگلش کرکٹر معین علی کے بھائی ہیں اور کرکٹر کاشف علی سے بھی، جن کے ساتھ وہ کشمیر پلیئر لیگ میں کھیلتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کوچ قدیر علی اور ساتھی کھلاڑی کاشف علی کے ساتھ اچھی کیمسٹری تیار کی ہے، جنہوں نے واقعی مجھے اچھی طرح سپورٹ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب آپ کو اس طرح کی شان دار سپورٹ حاصل ہو تو آپ اچھے نتائج پیدا کرنے کے پابند ہوں گے۔ اسامہ میر، جو اس سے قبل 2016-2020 تک پاکستان سپر لیگ کی فرنچائز کراچی کنگز کیلئے بھی کھیل چکے ہیں، نے ملتان سلطانز کو جوائن کیا۔ حالیہ برسوں میں لاہور قلندرز اور ملتان سلطانز پی ایس ایل کی دو کامیاب ترین فرنچائز بن کر ابھری ہیں۔ لاہور قلندرز گزشتہ دو سیزن کی فاتح ہے جبکہ ملتان سلطانز دونوں مواقع پر رنرز اپ رہی اور اس سے قبل پی ایس ایل کی چیمپئن بھی تھی۔ فائنل سمیت ٹورنامنٹ میں سلطانز کی جانب سے 11 میچز کھیلتے ہوئے اسامہ میر نے ٹورنامنٹ میں 39 اوورز میں 316 رنز دے کر 14 وکٹیں حاصل کیں۔ سلطانز کی جانب سے کھیلنے کے اپنے تجربے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اسامہ نے اسے شان دار قرار دیا۔ انہوں نے جیو کو بتایا کہ ان کی رائے میں ملتان سلطانز کی کامیابیوں کی وجہ ان کے ڈریسنگ روم کا حیرت انگیز ماحول ہے۔ یہ میرے لئے ایک نئی فرنچائز تھی لیکن مجھے ایک خاندان کی طرح محسوس ہوا۔ جس طرح ہمارے منیجر اور سی او او حیدر اظہر نے مجھے سپورٹ کیا اور کوچ اینڈی فلاور اور عبدالرحمٰن کے ساتھ ساتھ کپتان رضوان اور سکواڈ کے دیگر سینئر کھلاڑیوں نے بھی مجھے سپورٹ کیا۔ میری رائے میں سلطانز کے ڈریسنگ روم کا ماحول ان کی اچھی پرفارمنس کی بڑی وجہ ہے۔ 27 سالہ اسامہ میر نے اس سال کے آغاز میں نیوزی لینڈ کے خلاف اپنا انٹرنیشنل ڈیبیو کیا تھا، وہ اب تک ایک ہی ٹیم کے خلاف چھ ون ڈے کھیل چکے ہیں لیکن وہ ورلڈ کپ سکواڈ میں اپنی شمولیت کیلئے پر امید ہیں، جو اس سال اکتوبر میں منعقد ہوگا۔ اسامہ نے جیو کو بتایا کہ یہ میرا کام ہے کہ جب بھی مجھے پرفارم کرنے کا موقع ملے تو میں اچھا کھیل پیش کروں۔ میں صرف اتنا کر سکتا ہوں کہ مجھے دنیا کے کسی بھی فارمیٹ میں کرکٹ کھیلنے کا موقع ملے تو میں اس میں اپنا سو فیصد حصہ دوں، چاہے مجھے سکواڈ میں منتخب کیا جائے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا انتخاب یہ سب اللہ کے فیصلے اور سلیکشن کمیٹی کے چوائس پر منحصر ہے۔