• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایمن علی منصور

آج کے ڈیجیٹل دور میں ایسے نوجوانوں کی تعداد کم ہے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں آگے بڑھنا چاہتے ہیں ، اکثر نوجوان کچھ کیے بغیر سب کچھ پالینے کے خواہاں ہوتے ہیں، وہ کمائی کا ایسا ذریعہ چاہتے ہیں کہ منٹوں میں ترقی کے اعلیٰ درجے پر پہنچ جائیں۔ ایسے نوجوان حالات کی تلخی سے جلد گھبرا جاتے ہیں اوراس کا سامنا کرنے سے انکاری ہوتے ہیں۔ اقبال نے اپنےشاہین کو طلاطم خیز موجوں کے سامنے ڈٹ جانے والا دیکھنا چاہا لیکن افسوس آج کے نوجوان اس کے بالکل برعکس ہیں۔ گرچہ بعض کٹھن راہیں حوصلے پست کر دیتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ راہ سے فرار اختیار کر لیں۔

زندگی کی تلخ حقیقتوں کو قبول نہیں کر پاتےاور چھوٹی سے چھوٹی ناکامی پر دل برداشتہ ہوجاتے ہیں ۔ غالباَ انہوں نے اپنے دماغ میں یہ بات بٹھا لی ہے کہ کچھ کرنے کی کوشش بے کار ہے کیوں کہ صلہ تو کچھ ملنا نہیں ، ہر وقت یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں آگے بڑھنے کے مواقع نہیں، نظام درست نہیں ، وغیرہ وغیرہ۔ یوں بہت اچھے کی تلاش میں جو ملتا ہے اُس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں،نجانے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی تو نوجوان تھاجو سندھ فتح کرنےچلا تھا ،اس نے بھی تو حقیقت کا سامنا کیا تھا کیا، پھر آج کا نوجوان ایسا کیوں نہیں سوچتا۔ وہ کیوں سہل پسند ہے۔ وہ خوابی دنیا میں میں رہنا پسند کرتا ہے جہاں سب کچھ پالیتا ہے، مگر عملی دنیا میں خالی ہاتھ ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ ترقی کرتےنوجوانوں کو دیکھ کر حسد کرنے لگتا ہے اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

ایک طرف ان کی سہل پسندی دوسری جانب ملکی حالات، خراب معیشت ، بے روزگاری، شدت پسندی، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی وغیرہ ایسے میں نوجوان جب یہ سارا منظر نامہ دیکھتے ہیں تو انھیں مستقبل میں بہتری کی اُمید نہیں ہوتی، بعض اوقات یہ نوجوان شدت پسند گروہوں میں شامل ہوکر اپنا غصہ نکالتے ہیں۔ آج کے حالات دیکھ لیں جرائم میں نوجوانوں کی اکثریت ملوث ہے۔

بیشتر نوجوان عمومی طور پر مسائل پر جذباتی ہو جاتے ہیں لیکن ان کے اسباب پر غور کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ بہتری اسی وقت آتی ہے جب مایوسی کی دلدل سے نکل کر کچھ کرنے کا عزم کر تےہیں۔ نسلِ نو کو چاہیے کہ اپنے آپ کو موجودہ حالات کے مطابق تیار کریں، خود کو باخبر رکھیں۔

یاد رکھیں،حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے۔ ہر دانشور ہر مفکر نے نوجوانانِ اسلام کو آگے بڑھنے کی تلقین کی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ترقی ان ہی کے مرہونِ منت ہے۔ یہ مت سوچیں کہ آپ کچھ کر نہیں سکتے۔ ہمت کریں، محنت کریں اور سب سے بڑھ کر یہ فیصلے کریں مستقبل کا، ہر صورت ارادہ کریں کہ ایک کامیاب اور بہترین زندگی بسر کرنی ہے۔

وہ لوگ جو آپ سے بہتر حالت میں ہیں ان سے جلنے کڑھنے کے بجائے ان کے خیالات جانیے، انہیں اپنانے کی کوشش کریں گے تو آپ کو بھی ان جیسے نتائج ملنا شروع ہو جائیں گے۔ ہر چیز کا حصول ممکن ہے بہ شرطیکہ سنجیدگی سے اس کے بارے میں سوچا جائے۔ اچھا نہیں سوچ سکتے تو برا بھی مت سوچیں۔ منفی سوچ دیمک کی مانند ہے جو آپ کی ذات کو کھوکھلا کردے گی۔ اللہ نے انسان کو ایسے بنایا ہے کہ اس کے لئے کچھ بھی نا ممکن نہیں تھوڑی سی ہمت، ارادہ اور عمل مسلسل، منزل مقصود تک پہنچانے کا ضامن ہوتا ہے ۔