ہر قابل اور ذہین طالب علم کی خواہش ہوتی ہے کہ امتحان کی جس محنت اور لگن سے تیاری کی ہے، اُسے اس کا پھل ضرور ملے گااور وہ کامیاب ہو کر اگلی منزل کی جانب سفر جاری رکھ سکے گا۔ موجود ہ دور میں اچھی تعلیم کے حصول کے لیے والدین اپنے بچوں کو کوچنگ سینٹر اور ٹیوشن کا بندوبست کرتے ہیں۔ گھر میں یو پی ایس اور جنریٹر کابھی انتظام کرتے ہیں کہ بچوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے دیکھا جائے۔ دیکھا جائے تو نہم و دہم کی جماعتیں طالب علم کے مستقبل کی بنیاد ہوتی ہے۔ یوں میٹرک کے امتحانات انتہائی اہم قرار دیے جاتے ہیں۔ محنت و لگن سے ہی امتحانات میں نمایاں کامیابی مل سکتی ہے۔ لاکھوں بچے اور بچیاں ملک بھر سے ان امتحانات میں حصہ لیتے ہیں۔
ان بچوں کے سامنے کئی چینلجز ہیں۔ اول، بورڈ امتحانات، جس میں اچھے نمبر لینا انتہائی اہم ہے، دوم اپنے والدین، اساتذہ اورمعاشرے کی توقعات، جو ان سے وابستہ ہیں اور سوم امتحانات کی تیاری، مشکل مضامین ، کم وقت اور غیر یقینی نتائج کا ڈر، اس خوف کو دور کرنے کے لیے بہت سےطلباء نقل کرنے کی نت نئی ترکیبیں نکالنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ طلبا کی اکثریت پورا پورا سال کتابوں کی شکل نہیں دیکھتی، نوٹس اور پنج سالہ پیپرز پر انحصار کرتی ہے، ان کی قابلیت کی قلعی امتحانات میں اس وقت کھلتی ہے، جب پیپرز کی تیاری کرنے کے بہ جائے نقل کرکے پاس ہوتے ہیں۔
وجہ کچھ بھی ہو لیکن ایک بات طے ہے کہ پاکستان میں تعلیمی زوال کا ایک بڑا سبب نقل کلچر ہے، جو ایک دیمک کی مانند ہے اور ہمارے تعلیمی نظام کو اندر ہی اندر کھو کھلا کر رہی ہے۔ کوئی اس زہرِ قاتل کے لیے موثر عملی اقدامات اٹھانے کے لیے تیا ر نہیں۔ امتحان سے پہلے ہم متعلقہ حکام کے بیانات اخبارات میں پڑھتے ہیں، جس میں اس بات کا عزم کیا جاتا ہے کہ ، اس دفعہ نقل کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کیےگئے ہیں لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ بیانات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
نقل ایک ایسا روگ ہے،جوطلبا کی صلاحیتوں کو زنگ آلود، ان کے ارادوں کو کمزور، عزائم کو پست اور ان کے مستقبل کوداؤ پر لگا رہا ہے، گرچہ ہر طالب علم نقل میں ملوث نہیں ہوتا ،جس کا اندازہ اُن کے امتحانی مراکز کو دیکھ کر ہوتا ہے ، جہاں بالکل نقل نہیں ہوتی ۔ بہت سے ایسے طالب ِعلم ہیں ، جو نقل سے اپنا دامن بچائے رکھتے ہیں لیکن ایسے بھی طلبا ہیں جو امتحانات میں ناجائز ذرائع استعمال کرکے ڈگریاں حاصل کرتے ہیں، مگر جب وہ نوکریوں کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں تو بہ مشکل ہی کوئی اچھی نوکری تلاش کر پاتے ہیں۔ نقل کرکے پاس ہونےسے نوکری مل بھی گئی، تو کام کیسے کریں گے؟کچھ دن بعد قابلیت کا اندازہ ہو ہی جائے گا۔
حال ہی میں ہونے والے نہم دہم کے امتحانات میں اِک مرتبہ پھر نقل مافیا مکمل طور پر چھایا رہا ۔ امتحانی مراکز پر باقاعدہ نقل کرائی گئی۔ بعض طالب علموں نے یہ بھی کہا کہ امتحانی کمرے سے چند بچوں کے رول نمبر پکارنے کے بعد اُنہیں الگ مخصوص کمروں میں بھیج دیا گیا ، جہاں انہوں نے نقل کی بھی اورکروائی بھی گئی۔ تقریباً یہی صورتحال طالبات کے امتحانی مراکز میں دیکھنے میں آئی۔ شہر کے چند علاقوں میں نقل کی روک تھام کی ٹیموں نے چھاپے مارے لیکن اُس کے باوجود نقل کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔
غریب اور متوسط گھرانوں کے والدین جس طرح اپنے بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں اور اس مہنگائی کے دور میں اِک خطیر رقم اپنے بچوں پر خرچ کرتے ہیں،
تا کہ وہ اچھی تعلیم حاصل کرکے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آگے بڑھیں، ایسے والدین کے خواب ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ طالب علم جو حقیقی معنوں میں علم سے محبت کرتا ہے اور عزم کرتا ہے کچھ بھی ہو اُسے آگے بڑھنا ہے اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ لیکن وہ بھی اس مافیا کے ہاتھوں مجبور ہو کر رہ جاتا ہے اور وہ بچے ،جنہوں نے پورے سال کتاب کی، اسکول کی اور اپنے استاد کی شکل نہیں دیکھی، وہ اچھے نمبروں سے پاس ہو جاتے ہیں، ایسے میں ہماری قوم کا مستقبل کیا ہوگا۔
نقل کے سدِ باب کے لیے موثر قانون بننا ہوگا ،جب تک نقل کے تدارک کے لیے سنجیدہ اورٹھوس اقدامات نہیں کیے جائیں گے، ہمارے مستقبل کو تاریکی سے کوئی نہیں بچا سکتا، کیوں کہ جس عمارت کی بنیاد ناقص ہوگی، وہ مضبوط اور پائیدار نہیں ہو سکتی۔ عمارت کو مضبوط اور مستحکم کرنا ہے تو تعلیمی نظام کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ہمارا ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اور دُنیا جس برق رفتاری سے ترقی کر رہی ہے، ایسے میں ہمیں ’’تعلیم یافتہ، باشعور، قابل‘‘ نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے، اگر نسلِ نو تعلیم یافتہ نہیں ہوگی تو ہم کبھی ترقی کا سفر طے نہیں کر سکیں گے۔ دنیا میں وہی قومیں کام یاب کہلاتی ہیں جو تعلیمی میدان میں آگے ہوتی ہیں۔