اسلام آباد (انصار عباسی) ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید زیر حراست نہیں ہیں۔ بدھ کے روز سوشل میڈیا کی کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو ان کے آبائی شہر چکوال کی رہائش گاہ میں نظر بند کر دیا گیا ہے اور 9؍ مئی کے حملوں کے حوالے سے ان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
دی نیوز نے سوشل میڈیا رپورٹس کی سچائی کا پتہ لگانے کیلئے تین مختلف ذرائع سے رابطہ کیا۔ تینوں نے ان اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جنرل فیض کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک ذریعے کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کی گزشتہ دنوں میں جنرل (ر) فیض حمید سے ملاقات بھی ہوئی ہے۔
اس نمائندے نے سابق آئی ایس آئی چیف سے ان کے موبائل نمبر پر بھی رابطے کی کوشش کی لیکن نمبر بند تھا۔ جنرل فیض حمید میڈیا اور سیاست دونوں میں بحث کا مرکز بنے ہوئے ہیں کیونکہ آئی ایس آئی میں بطور ڈی جی سی اور اس کے بعد ڈی جی کے طور پر ان کا دور تنازعات سے گھرا ہوا تھا۔
یہ تنازعات ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ سیاسی میدان اور میڈیا میں کئی لوگوں کا الزام ہے کہ عمران خان کو عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے فیض حمید ان کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک رہے ہیں۔ کچھ کا الزام ہے کہ جنرل فیض حالیہ مہینوں میں بھی عمران خان کو مشورہ دیتے رہے ہیں۔
9 مئی کے حملوں کے پیچھے فیض عمران کے تعلق کے بارے میں بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ تاہم یہ رپورٹس غیر مصدقہ ہیں۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس بھی تھا جو موجودہ نیب چیئرمین کے تقرر سے قبل نیب کو بھیجا گیا تھا۔ تاہم، بیورو نے ریفرنس واپس کر دیا۔
دی نیوز نے رواں سال مارچ میں خبر دی تھی کہ نیب راولپنڈی کے دفتر کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف انکوائری شروع کرنے کیلئے ایک فائل موصول ہوئی تھی جس میں جنرل فیض کے انکم ٹیکس ریکارڈ کی مکمل تفصیلات اور چکوال کے کچھ نامعلوم مقامی افراد کے دستخط کے ساتھ دو صفحات پر مشتمل ایک شکایت درج کرائی گئی تھی۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ڈی جی نیب راولپنڈی نے فائل پر غور کیا اور اپنے اس وقت کے چیئرمین سے مشاورت کے بعد کیس کو اس ہدایت کے ساتھ واپس کردیا کہ متعلقہ حکام کی جانب سے بیورو کو باضابطہ درخواست کی جائے۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے بھی چند ماہ قبل کہا تھا کہ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے اور اس بارے میں جو بھی پیش رفت ہوئی وہ میڈیا سے شیئر کی جائے گی۔ وزیر داخلہ نے یہ نہیں بتایا کہ جنرل فیض کے خلاف کون سا ادارہ تحقیقات کر رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف کس بارے میں تحقیقات ہو رہی ہیں۔ تاہم رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جنرل فیض کا کورٹ مارشل صرف ادارہ ہی کرا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملٹری ٹرائل جی ایچ کیو کراتا ہے وزارت داخلہ نہیں۔