• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر کوئی قومی سلامتی کیخلاف سازش کرے تو یہ نہیں کہا جاسکتا فوج ٹرائل نہیں کرسکتی، چیف جسٹس

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ ملکی سلامتی کے معاملات براہ راست آرمی کے تحت آتے ہیں،اگر کوئی قومی سلامتی کیخلاف سازش کرے تو یہ نہیں کہا جاسکتا فوج ٹرائل نہیں کرسکتی، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا تعین فوج نے کرنا، سویلینزکو فوجی عدالتوں میں لانے کا طریقہ کار دیکھنا ہوگا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا بات قومی سلامتی کی ہوتوآرمی ایکٹ کےتحت ٹرائل ہو سکتا ہے، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے سول ٹرائل چل رہا ہے تو فوج کیسے فیصلہ کرلیتی ہے کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کردو۔ کیس کی مزید سماعت پیر 26جون تک ملتوی کردی گئی۔پنجاب میں 9مئی کے حوالے سےگرفتار کیے گئے گئے ملزمان کا ڈیٹا صوبائی حکومت نے سپریم کورٹ میں جمع کر دیا،فوج کی حراست میں موجود ملزمان، نابالغ بچوں، صحافیوں اور وکلا کا ڈیٹا شامل نہیں ہے ۔ جمعہ کو چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کیخلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے سماعت کی۔7 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میری درخواست دیگر درخواستوں سے الگ ہے، میں نے درخواست میں آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا، میرا یہ مؤقف نہیں کہ سویلینز کا آرمی ٹرائل نہیں ہوسکتا، سویلینز کے آرمی عدالت میں ٹرائل ہوتے رہے ہیں، میں نے تحریری معروضات بھی جمع کرادی ہیں۔اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ نے آرمی ایکٹ کو چیلنج کیوں نہیں کیا؟ فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ میرا یہ مؤقف نہیں ہے کہ آرمی ایکٹ کی کوئی شق غیرقانونی ہے، میرا مؤقف ہے کہ من پسند لوگوں کا آرمی ٹرائل کرنا غلط ہے، آرمی ایکٹ کے تحت مخصوص سویلینز کا ٹرائل خلاف آئین ہے۔وکیل فیصل صدیقی کی دلیل پر جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ دوسرے کیسزمیں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟کن وجوہات کی بناپرسویلینزکا ٹرائل آرمی ایکٹ کےتحت کیاجاتا رہا ہے؟جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ یاآفیشل سیکرٹ ایکٹ کےتحت توٹرائل تب ہوتا ہےجب بات قومی سلامتی کی ہو، سویلینز نے آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کب کی؟جب آپ آرمی ایکٹ چیلنج نہیں کررہے تو قانون کی بات کریں۔جسٹس اعجازالاحسن نے وکیل فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ کن جرائم پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگتا ہے؟ آرمی ایکٹ کب عمل میں آتا ہے یہ بتادیں، قانوناً اگرفوج سویلین کی حوالگی کا کہتی ہے توریفرنس وفاقی حکومت کوبھیجاجاتاہے فوج چارج کرسکتی ہے لیکن ٹرائل تو سول عدالت میں چلے گا، بتائیں کمانڈنگ افسر انتظامی جج سے کس بنیاد پرسویلین کی حوالگی کا مطالبہ کریگا؟ کوئی دستاویز تو دکھادیں جس کی بنیاد پرسویلینزکی حوالگی کا مطالبہ ہوتا ہے۔جسٹس مظاہر نے استفسار کیا کہ آپ یہ نہیں بتاسکے کہ کن درج مقدمات میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات شامل کی گئیں، یہ بھی بتائیں کہ کمانڈنگ افسر کیسے سویلینزکی حوالگی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کیسے فوج کی جانب سے یہ الزام لگایاگیاکہ ان افراد نےجرم کیا ہے؟ باربارآپ سے سوال کررہے ہیں اورآپ جواب نہیں دے رہے، سول ٹرائل چل رہا ہے توفوج کیسے فیصلہ کرلیتی ہے کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کردو؟ فوج کا اندرونی طریقہ کارکیا ہے جس میں طے ہوتا ہوکہ سویلین کو ہمارے حوالے کردو؟ کیا آرمی اتھارٹیزیہ فیصلہ بھی کرسکتی ہیں کہ سویلین کو ہمارے حوالے کردو؟ اگرکسی کا سول کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہےتوکیا فوج اس کی حوالگی کا کہہ سکتی ہے؟ آپ کےمطابق آفیشل سیکرٹ ایکٹ والاجرم ضروری نہیں کہ آرمی ایکٹ کے تحت ہواہو،کسی کی گرفتاری کیلئے آنے سے پہلے فوج اپنے گھرپرکیا تیاری کرتی ہے یہ بتادیں۔

اہم خبریں سے مزید