• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل پسند کی شادی ایک وَبا کی صورت اختیار کر گئی ہے، گو کہ شادی ایک قابل ستائش عمل ہے۔ سندھ اسمبلی نے اس سلسلے میں قانون سازی کر کے لڑکا یا لڑکی کی بلوغت کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کی ہے، لیکن صورت حال یہ ہے کہ اس وقت چودہ اور پندرہ سال کی عمر میں لڑکی یا لڑکا نکاح کے لائق ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ضلع شہید بینظیر آباد کی تحصیل قاضی احمد میں ساڑھے چودہ سالہ ہندو لڑکی کوچنگ سینٹر کے استاد کے ساتھ اور دولت پور کی ایک لڑکی نے گھر سے بھاگ کر شادی کر لی۔ 

تاہم ان دونوں شادیوں کا انجام یہ ہوا کہ سوشل میڈیا پران شادیوں کو ایشو بنا دیا گیا اور اس کے نتیجے میں شادی کرنے والے نوجوانوں کے اہل خانہ اور رشتے داروں کا اس قدر گھیراؤ ہوا کہ انہوں نے اپنی منکوحہ سے دستبرداری کرلی اور لڑکیاں والدین کے حوالے کر دی گئیں، ادھر انٹرنیٹ کی قیامت بھرپور انداز میں جاری ہے اور لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر والدین سے چھپ کر شادیاں رچا رہی ہیں۔ 

اس سلسلے میں وومن پولیس اسٹیشن کی انچارج مریم بھرٹ کا کہنا ہے کے موبائل فون کے ذریعے ہونے والی دوستی رشتے میں تبدیل تو ہو جاتی ہے، لیکن یہ رشتہ پائیدار نہیں ہوتا اورعشق کے نتیجے میں شادی کے بعد گھر والوں اور سوسائٹی کا دباؤ نوبہیتا جوڑا برداشت نہیں کر پاتا اور اس کا نتیجہ بدگمانی اور اس کے بعد یار تو کاروکاری کے الزام میں لڑکا اور لڑکی موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں یا پھر وہ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ صورت حال بھی ہے کہ جو لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر شادی کرتی ہیں، ان کے شوہر تھوڑے ہی عرصے کے بعد جب ان پر عشق کا نشہ اترتا ہے، تو الزام لگانے شروع کر دیتے ہیں اور ان کا یہ بھی کہنا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بھی تو نے عشق کئے ہوں گے اور اس کے بعد تو نے میرے ساتھ شادی کی ہے اور اس الزام تراشی کے بعد بات کوٹ کچہری تک پہنچ جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں خلا اور طلاق کی نوبت آتی ہے۔

انچارج وومن پولیس اسٹیشن مریم بھرٹ کا کہنا تھاکہ موبائل فون کے ذریعے دوستی کرنے والی لڑکیاں اور لڑکوں کی ایسی بڑی تعداد سامنے آتی ہے جو کہ انتہائی معزز گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسی بچیاں جو گھر سے بھاگ کر شادی کرتی ہیں، ان کے والدین کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بچی ان کے حوالے کی جائے اور اس سلسلے میں وہ کوئی پولیس رپورٹ دیگر کارروائی کے حق میں نہیں ہوتے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں راول پنڈی کے ایک انتہائی معزز گھرانے کی بچی کو پنجاب کے ایک دور افتادہ شہر میں رہنے والے نوجوان نے ورغلایا اور وہ بچی اپنے گھر والوں سے چھپ کر اس عالمی نکلی کہ اس کے پاس لاکھوں روپیہ اور سونے کے زیورات موجود تھے، وہ اس لڑکے کے پاس پہنچی اور اس کو پتہ نہ تھا کہ اس کے مقدر میں کتنی بڑی رسوائی اور ذلت لکھ دی گئی ہے، پھر اس نوجوان نے اس بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کو غلط کاری پر مجبور کیا۔ 

تاہم اس کے جسم کے نازک اعضاءکو سگریٹ سے داغا گیا اور پھر بھی وہ اس غلط کاری کے لیے تیار نہ ہوئی، تو اس کو نشہ دے کر نواب شاہ لایا گیا اور یہاں بازار گناہ میں اس کو فروخت کیا گیا۔ انچارج وومن اسٹیشن مریم بھرٹ کا مزید کہنا تھا کہ خفیہ اطلاع ملنے پر انہوں نے چھاپہ مار کر اس بچی کو بازیاب کروایا، لیکن ان کا یہ کہنا تھا کہ بچی کی حالت ایسی تھی کہ وہ نہ زندہ تھی اور نہ مردہ، جب کہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ ظلم بہت زیادتی کرنے والا ظالم انسان پولیس اور قانون کی دسترس سے اب تک اس لیے باہر ہے کہ پنجاب میں جب اُس کی موجودگی کی اطلاع پر چھاپہ مارا جاتا ہے، تو وہ وہاں سے جگہ بدل کر غائب ہو جاتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ بچی کو اس کے والدین کے حوالے کردیا گیا، لیکن ان کا یہ کہنا تھا کہ یہ ایک ایسی داستان نہیں بلکہ اس طرح کے واقعات روزبروز پیش آرہے ہیں، جس کا سدباب کرنے کے لیے سول سوسائٹی اور علمائے کرام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، جب کہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میڈیا کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اس طرح کے ڈرامے اور اسٹوری نشر نہ کریں، جس سے بے راہ روی بڑھے اور پسند کی شادی جو کہ کوئی جرم نہیں ہے، لیکن گھروں سے بھاگ کر یہ شادی کرنے والوں کو مشکلات ضرور پیش آتی ہیں، اس سلسلے میں سینئر ایڈوکیٹ نعیم منگی کا کہنا ہے کہ ایک ماہ میں پانچ سو سے زائد خلع اور طلاق کے کیس نواب شاہ کورٹ میں آئے اور ان کا یہ کہنا ہے کہ اس وقت دیگر جرائم کے علاوہ سب سے زیادہ وکیلوں کا کاروبار اسی ایشو سے چمک رہا ہے کہ پسند کی شادی کرنے والا جوڑا ایک دوسرے سے بے زار ہو کر کورٹ کچہری پہنچ رہا ہے اور خلع اور طلاق میں دونوں طرف کے وکیل لامحالہ مستفید ہو رہے ہیں۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید