چمن(نورزمان اچکزئی) چمن میں پولیس جیل سے سنگین جرائم میں ملوث 17 قیدیوں کےفرار واقعہ کا مقدمہ درج ہونے اور جیلر سمیت6 اہلکاروں کو معطل کرکے نئی انتظامیہ تو تعینات کردی گئی ہے مگر تقریبا ً ایک صدی قبل تعمیر ہونےکے بعد سے جیل کی انتہائی خستہ حالی اور ناقص سیکیورٹی پرتوجہ نہ دینے کاانکشاف ہواہے ،جیل میں سیکورٹی کیمرے ہیں اور نہ ہی واچ ٹاورز،ایک جیلر، دو افسر اور 14 اہلکار تین شفٹوں میں ڈیوٹی دیتے ہیں۔ جیل حکام نے جنگ کو بتایا کہ چمن میں پولیس کی سب جیل قیام پاکستان سےقبل 1926 میں تعمیر ہوئی اور اس کےبعد نہ تو اسے اپ گریڈ کیا گیا اور نہ ہی شدت پسندی کے بڑھتے واقعات کےبعد جیل کی سیکورٹی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیاجاسکاہے۔ جیل کی نگرانی کیلئے سیکورٹی کیمرے ہیں اور نہ جیل کے اندر اور باہر کے صورتحال پر نظر رکھنے کیلئے واچ ٹاورز ۔ بیرکس کے اطراف حفاظتی جنگلہ کی حالت اس قدر ناقص ہے کہ اسے کئی بار قیدی دھکادےکرگراچکے ہیں ۔ گھریلو تالے لگاکرمین گیٹ اور بیرکس کو بندرکھا جاتاہے۔ جیل سیکورٹی کیلئے ایک جیلر دو افسر اور 14 اہلکار تین شفٹوں میں ڈیوٹی دیتے ہیں اور اکثر نفری کی کمی کےباعث ان لوگوں سے جیل سےباہرایمرجنسی ڈیوٹی بھی لی جاتی ہے۔ قیدی فرار ہونے کے واقعہ کےدن ایک افسر اور دو اہلکار تعینات تھے۔ اہلکاروں کےرہائشی کمرے و دفاتر قدیم زمانے کے ٹین ٹبر اور مٹی سےبنے ہیں جو اب انتہائی خستہ حال ہوچکےہیں، دیواروں پر خاردارتار ہے نہ باہر سیکیورٹی چیک پوائنٹ ، بلکہ شہرکےوسط میں قائم جیل کے اطراف بڑی بلڈنگز بن چکی ہیں جو خطرناک قیدیوں اور خود جیل اسٹاف کیلئے کسی بھی وقت خطرے کا پاعث بن سکتی ہیں۔