اسلام آباد (انصار عباسی)تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی پارٹی رہنماؤں کو خبردار کر دیا ہے کہ آئندہ دو ہفتوں میں انہیں ممکنہ طور پر گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد احتجاج کے حوالے سے حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے۔ تاہم، پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ احتجاج ’’واقعی پر امن‘‘ ہوگا اور احتجاج میں شامل کوئی شخص کسی چھاؤنی یا فوجی علاقوں کے قریب نہیں جائے گا
گرفتاری سے بچنے کیلئے تاحال روپوش پارٹی رہنماؤں کو ہدایت کی گئی ہے کہ احتجاج میں اس انداز سے شرکت کی جائے کہ کوئی گرفتار نہ ہو۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ یہ احتجاج بغیر کسی گرفتاری کے ہوگا۔
عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سمیت کسی بھی شخص کو ادا کرنے کیلئے قائدانہ کردار نہیں دیا جائے گا۔ پارٹی کے معاملات ایک نئی کور کمیٹی دیکھے گی جس کے ارکان کو گرفتاری سے بچانے کیلئے ان کے ناموں کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا۔
سابقہ کور کمیٹی کے بیشتر ارکان پہلے ہی پارٹی سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ نئی کور کمیٹی کے ارکان کون ہوں گے۔ یہ ایک ایسا راز ہے جو صرف عمران خان جانتے ہیں اور انہوں نے پارٹی کو رہنماؤں کو بتا دیا ہے کہ اُن کی گرفتاری کی صورت میں وہ متعلقہ رہنماؤں کو نئے ناموں سے آگاہ کر دیں گے۔
پی ٹی آئی کے ذرائع نے احتجاج کے طریقہ کار اور انداز کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ معاملہ بھی فی الحال ایک راز ہے جسے ظاہر نہیں کیا جا رہا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ احتجاج کامیاب اور توجہ حاصل کر پائے، اور حکومت بھی اسے ناکام نہ بنا پائے۔ تاہم، یہ یقین دہائی کرائی گئی ہے کہ احتجاج واقعی پر امن رہے گا۔
عمران خان کی زیر قیادت پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ پارٹی چیئرمین کی گرفتاری سے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ 9؍ مئی کے حملوں کے بعد پی ٹی آئی کے مختلف رہنماؤں کی جانب سے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے سے پارٹی کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔
اس کی بجائے ذرائع کا اصرار ہے کہ پارٹی عوام میں مزید مقبول ہوگئی ہے اور جن لوگوں نے پارٹی کی قسمت کا فیصلہ کرنے کی کوشش کی وہ ناکام ہوگئے ہیں۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کو اطلاع ملی ہے کہ انہیں دو ہفتوں کے اندر ممکنہ طور پر گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی قیادت کو یقین ہے کہ دبئی پلان (نواز شریف اور آصف زردرای کے درمیان ہونے والے مذاکرات) اور ساتھ ہی پی ٹی آئی کو ختم کرنے کا اسکرپٹ ناکام ہو جائے گا۔
کہا جاتا ہے کہ اگرچہ پارٹی کی کمزور قیادت نے علیحدگی اختیار کر لی ہے لیکن پارٹی کیخلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے عوام میں پی ٹی آئی اور چیئرمین عمران خان کیلئے ہمدردی پیدا ہوگئی ہے۔
پارٹی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ مائنس عمران خان کا کوئی فارمولا عمران خان یا ان کی پارٹی کے ایسے رہنماؤں کیلئے قابل قبول نہ ہوگا جن کی اکثریت روپوش ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما سمجھتے ہیں کہ جولائی کا مہینہ اُن کیلئے مشکل ہو گا لیکن اس کے بعد حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔
پارٹی نے آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے عزم کا اظہار کیا ہے، چاہے پھر یہ اکتوبر میں ہوں یا نومبر میں۔ عمران خان نے حال ہی میں ایک غیر ملکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے آئندہ 15؍ سے 20؍ روز میں اپنی گرفتاری کا عندیہ بھی دیا تھا۔