اسلام آباد (عمر چیمہ) اگرچہ جلد بازی میں نیب آرڈیننس میں ترمیم سے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو گرفتار کرنے کے حکومتی ارادے کا اشارہ ملتا ہے لیکن نیب حکام کا کہنا ہے کہ قانون کا اطلاق میرٹ پر ہو تو دونوں کی گرفتاری مشکل ثابت ہو سکتی ہے۔
نیب آرڈیننس میں کی گئی تازہ ترمیم میں چیئرمین نیب کا یہ اختیار بحال کر دیا گیا ہے کہ ملزم نوٹسز کے باوجود تحقیقات میں شامل نہیں ہو رہا یا جان بوجھ کر تعاون نہیں کر رہا تو دورانِ انکوائری ایسے ملزم کیخلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ زیر سماعت مقدمات میں پہلے عمران خان تعاون نہیں کر رہے تھے لیکن بعد میں جب بھی تفتیش کاروں کی جانب سے انہیں طلب کیا گیا وہ پیش ہوتے رہے لہٰذا عدم پیشی کو وجہ بنا کر انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔
ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ عمران خان نہ صرف تحقیقات میں شامل ہوئے بلکہ خود کو بچانے کیلئے الزام دوسرے کے سر ڈال دیتے ہیں۔
دوسری اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی اس معاملے کو حق اور باطل کی جنگ قرار دیکر کہتی ہیں کہ وہ اور ان کے شریک حیات کامیاب ہوں گے۔
عمران خان سے دو مقدمات میں تفتیش ہو رہی ہے: بیرون ممالک سے ملنے والے تحائف کو نقائص پر جائزے کی بنیاد پر کم قیمت پر خریدنا اور کراچی کے ایک پراپرٹی ٹائیکون پر جرمانے کی مد میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی سے ملنے والی رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کی اجازت دینا۔
دوسری جانب، بشریٰ بی بی پر القادر ٹرسٹ کیس میں پراپرٹی ٹائیکون سے فائدہ لینے کا الزام ہے۔ توشہ خانہ کیس میں عمران خان نے نیب کے روبرو موقف اختیار کیا ہے کہ وہ بیرون ممالک سے ملنے والے تحائف کی مالیت کے تعین کے معاملے میں وہ شامل نہیں تھے، بلکہ یہ کام ان کے ملٹری سیکریٹری کا تھا۔ لہٰذا، عمران خان کی دلیل ہے کہ تحفے کی مالیت کا درست تعین نہ ہونے کی صورت میں جوابدہ ان کے ملٹری سیکریٹری ہیں۔
عمران خان یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ملٹری سیکریٹری یہ کہے کہ اس نے عمران خان کے دباؤ میں آ کر ایسا کیا تو اُس سے کہا جائے کہ یہ بات میرے سامنے آ کر کہے۔ برطانیہ کے نیشنل کرائم ایجنسی کے حوالے سے کیس میں انہوں نے کہا کہ این سی اے اور پراپرٹی ٹائیکون کے درمیان طے پانے والے تصفیے کی روشنی میں 190 ملین پاؤنڈز واپس بھیجے گئے۔
(نیب کو دونوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کی دستاویز تک رسائی حاصل نہیں) عمران کا اصرار ہے کہ معاہدے میں تجویز کیا گیا ہے کہ رقم ٹائیکون کے پاس جائے گی جسے وہ جرمانے کی صورت میں سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کرائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کو کوئی اعتراض ہے تو وہ اس اکاؤنٹ سے فنڈز کو دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل کر سکتی ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس بات کی منظوری کابینہ سے لینے کی کیا ضرورت تھی، تو اس پر عمران خان نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ایسا کرنے کی ایڈوائس دی گئی تھی تو انہوں نے ایسا کر دیا، لیکن اگر یہ اقدام غیر قانونی ہے تو یہ پوری کابینہ کا فیصلہ تھا اسلئے پوری کابینہ کو قصور وار سمجھنا چاہئے، نہ کہ صرف مجھ اکیلے کو۔ جب نیب نے کابینہ ارکان کو طلب کیا تو آدھی تعداد کا کہنا تھا کہ انہیں یاد نہیں کہ ایسا کیسے ہوا اسلئے تفصیلات فراہم نہیں کر سکتے، جبکہ آدھی کابینہ کے ارکان نے اس وقت کے احتساب چیف شہزاد اکبر کو قصور وار قرار دیا۔ شہزاد اکبر ملک سے باہر ہیں لہٰذا نیب ان تک نہیں پہنچ سکا۔
بشریٰ نے نیب کو بتایا کہ بطور ٹرسٹی وہ بینیفشری نہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں بتایا گیا کہ جس علاقے میں القادر یونیورسٹی قائم ہے وہاں کے لوگ بڑے غریب ہیں، اور انہوں نے اپنے شوہر (وزیراعظم) کے ساتھ مل کر یونیورسٹی قائم کرنے کا سوچا۔ جس نے بھی رقم عطیہ کی وہ یونیورسٹی پر خرچ ہوئی نہ کہ ان پر۔ نیب نے انہیں انگریزی میں سوالنامہ دیا اور انہوں نے اردو میں جواب دیا کہ وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہے لہٰذا انگریزی میں جواب نہیں دے سکتیں۔