نوعمری میں اسنوکر ورلڈ کپ ٹائٹل حاصل کرکے دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے قومی اسٹار احسن رمضان نے ایک بار پھر عالمی اسنوکر سرکٹ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف انڈر 21 ایشین اسنوکر چیمپئن شپ جیتی بلکہ اسے پاکستانی تاریخ کا حصہ بھی بنا دیا۔ احسن نے چیمپئن شپ کے بیسٹ آف سیون فائنل میں ایران کے ملاد پورالی کو 5 کے مقابلے میں دو سیٹ سے شکست دی۔
پاکستانی اسٹار نے ابتدائی چار فریمز جیتے جس کے بعد ایرانی کیوئسٹ نے کھیل میں واپس آنے کی کوشش کی اور دو فریمز جیتے، ساتویں فریم میں بھی احسن رمضان نے شاندر کھیل پیش کیا اورحریف کو آؤٹ کلاس کرتے ہوئے شاندار فتح اپنے نام کی۔ اس فتح کے ساتھ وہ ایشین انڈر 21 چیمپئن شپ جیتنے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔ اس سے قبل کھیلی گئی انڈر 21چیمپئن شپ میں فرحان مرزا دو مرتبہ جبکہ حارث طاہر اور ماجد علی ایک ایک بار فائنل میں رسائی حاصل کرچکے تھے۔
احسن نے چیمپئن شپ کے سیمی فائنل میں بھی ایران کے تیرداد آزادی پورکو شکست دی تھی جبکہ احسن رمضان نے ایرانی کیوئسٹ کے خلاف بیسٹ آف 7 سیمی فائنل بھی چار دو سے جیتا تھا۔ حیران کن اور قومی کھیلوں کے اداروں کی بے حسی بات یہ تھی کہ ایشین چیمپئن شپ میں شاندار کارکردگی اور دیار غیر میں پاکستان کا پرچم بلند کرنے والے احسن رمضان اور ان کے ساتھیوں کا وطن واپسی پر ایئرپورٹ استقبال کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
چیمپئن شپ جیتنے پر احسن رمضان کا کہنا تھا کہ ایشین انڈر 21 اسنوکر چیمپئن شپ جیت کر عالمی ریکارڈ بنانے کی تو خوشی ہے لیکن ملکی کھیلوں کے سربراہوں اور اداروں کے حکام کاعالمی کامیابی پر کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی نہ کرنے کےرویہ پر انتہائی مایوسی ہوئی ہے، اس سے قبل بھی ورلڈ چیمپئن شپ جیتنے پر حکومت کی جانب سے وہ حوصلہ افزائی نہیں ہوئی جس کی توقع کررہا ہے۔
انہوں نےکہا کہ دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کرنے والے کھلاڑیوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے لیکن ہمارے یہاں ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہے، احسن کا کہنا تھا کہ 2022ءمیں ورلڈ کپ اسنوکر جیتنے پر بھی میرے ساتھ جو رویہ اختیا ر کیا گیا وہ بھی اچھا نہیں تھا، پاکستان اسپورٹس بورڈ کی پالیسی کے مطابق عالمی مقابلوں میں چیمپئن شپ جیتنے والے یعنی گولڈ میڈل حاصل کرنے والے کھلاڑی کو ایک کروڑ روپے کی انعامی رقم کا حقدار قرار دیا گیا تھا اور کافی عرصےتک کھلاڑی اس سے مستفیض ہوتے رہے لیکن اسنوکر کا کوئی کھلاڑی ایسا نہیں ہوگا جس نے گولڈ میڈل تو لیا ہو اور اسے ایک کروڑ روپے کی انعامی رقم دی گئی ہو۔
گزشتہ سال اسپورٹس منسٹری میں انعامی رقم کے حوالے سے عالمگیر شیخ کے ساتھ کئی چکر لگائے اور انہوں نے مجھے دس لاکھ روپے کی انعامی رقم دینے کا اعلان اور کیا اور اس رقم میں سے بھی ایک لاکھ روپے ٹیکس کی مد میں کاٹ لئے گئے۔ میں اس بات کا ذکر اس لئے کررہا ہوں کہ دنیا بھر میں کھلاڑیوں کی قدر کی جاتی ہے انہیں قومی ہیروز کا درجہ دیا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں اس کے برعکس ہے۔ اسنوکر کے چند کھلاڑیوں کو نیشنل بینک نے ملازمت دی ہے اس کے علاوہ بیشتر کھلاڑی بے روزگار ہیں۔ ان میں میں بھی شامل ہوں۔ میری گزر اوقات انعامی رقم سے ہی ہوتی ہے۔
ورلڈ کپ میں چار ہزار ڈالرز کی انعامی رقم ملی تھی اور ایشین چیمپئن شپ میں بھی چار ہزار ڈالرز کی انعامی رقم ملی ہے ۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے احسن رمضان کے ماں باپ دنیا میں نہیں ہیں، وہ اچھرہ کے علاقے میں اپنی بہن کے ساتھ رہتے ہیں اور دی کیوئسٹ اکیڈمی کو ہی اپنا مسکن قرار دیتے ہیں۔ احسن حکومتی اسپورٹس کرتا دھرتائوں سے تو مایوس ہیں لیکن اپنے کھیل کو عمدہ انداز میں جاری رکھنا چاہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مستقبل میں بھی عالمی سرکٹ میں کامیابی حاصل کروں گا اور اپنے کھیل میں مزید بہتری اور نکھار لائوں گا۔
اپنے دوست اور گزشتہ ایشین انڈر 21کے فائنل میں پہنچنے والے ماجد علی کے انتقال پر احسن رمضان کا افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں نے ماجد کے ساتھ اسنوکر کھیلی ہے وہ کئی دفعہ فیصل آباد سے لاہور بھی آیا اور میرے پالر میں کھیلتا تھا۔ گزشتہ تین سال سے اس کی اسنوکر کم ہوگئی تھی لیکن اس سے پہلے اس نے کئی میڈلز حاصل کئے تھے۔ اس کا گھرانہ مالی طور پر مستحکم تھا اسے روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ ڈاکٹرز سے اس کا علاج چلتا رہتا تھا تو وہ ٹھیک رہتا تھا، نارمل لائف گزارتا تھا۔ ایک بار اس نے ہمارے پارلر میں عجیب حرکت کی اور کیو لہراتے ہوئے وہاں موجود تمام کھلاڑیوں کو متنبہ کیا کہ میرے ہاتھ میں تلوار ہے سب لوگ باہر نکل جائیں ورنہ میں مار دوں گا۔ اس حالت میں پارلر میں موجود تمام لوگ سہم گئے۔ فیصل آباد میں اس کا اپنا اسنوکر پارلر بھی تھا جہاں وہ اسنوکر کے مقابلے بھی کراتا تھا۔ بظاہر ٹھیک ٹھاک لگتا تھا لیکن ذہنی طور پر اپ سیٹ رہتا تھا۔ اس نے جس طرح اپنی زندگی ختم کی اس سے خوف آتا ہے۔
پاکستان بلیئر اینڈ اسنوکر ایسوسی ایشن کے صدر جاوید کریم نےجنگ سے بات چیت میں کہا کہ اتفاق سے قومی کھلاڑیوں کی وطن واپسی میں اور دیگر عہدیدار ملک میں نہیں تھے ورنہ ہم ان کا شاندار استقبال کرتے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اسنوکر اسٹارز کی وطن واپسی پرکھیلوں سے تعلق رکھنے والے حکومتی عہدیدار ان کا استقبال کرتے۔ کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ مجھے بھی ان افراد کی عدم موجودگی پر افسوس ہےجب کھیلوں کو چلانے والے ادارے ہی اپنی سرزمین پراپنے ہیروز کا استقبال نہیں کریں گے تو ان کی حوصلہ افزائی کیسے ہوگی۔ دنیا بھر میں قومی پرچم بلند کرنےاور ایونٹ میں کامیابی حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کی وطن واپسی پرشاندار استقبال ہوتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اسنوکر پاکستان کا واحد کھیل ہے جس میں ہم نے سب سے زیادہ میڈل حاصل کرکے پاکستان کی تاریخ رقم کی ہے۔ ہمارے ملک میں اس کھیل کے بے تحاشہ باصلاحیت کھلاڑی ہیں۔ خاص طور پر احسن رمضان جس کی عمر بھی ابھی زیادہ نہیں ہے وہ دنیا بھر میں شاندار کھیل کا مظاہرہ کررہا ہے۔ میں حکومت پاکستان اور کھیلوں سے تعلق رکھنے والے اعلی عہدیداروں سے کہوں گا کہ اس کھیل کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ اس کے کھلاڑیوں کو قومی پالیسی کے تحت انعامی رقم دی جائے اور اب تک جتنے بھی کھلاڑیوں کی انعامی رقم رکی ہوئیں انہیں جلد از جلد جاری کی جائیں۔