• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جون سے اگست تک بیشتر اسکولز، کالجز کی تعطیلات ہوتی ہیں۔ اور یوں، بچّوں کے تفریح کے تو بڑوں کے مزید مصروفیت، ہنگامہ خیزی کے دن شروع ہوجاتے ہیں،گوکہ زمانہ کافی بدل گیا ہے، بہت سی روایتی چیزیں اُس انداز کی نہیں رہیں، جیسے پہلے تھیں، معاشی حالات میں بھی تبدیلی نمایاں ہے کہ کہیں فراخی آئی ہے، تو کہیں تنگی۔ ایک طرف انسانی رشتے اور تعلقات ہیں، دوسری طرف بہت سےحقائق، جنہیں بہرحال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ چھٹیوں میں قریبی عزیزوں کے گھر جانے، فراغت کے دن گزارنے کی روایت کم از کم مڈل کلاس گھرانوں میں تو اب بھی برقرار ہے۔

نانا، نانی کی زندگی تک اُن کاگھر بچّوں کے لیے خوشیوں کی ایک طلسماتی دنیا ہوتی ہے، جب کہ مائیں بھی انتظار میں دن گن رہی ہوتی ہیں کہ کب چھٹیاں شروع ہوں اور سامان باندھ کے میکے میں اٹواٹی کھٹواٹی لی جائے۔باپ کے گھر میں جہاں بیٹیاں اپنی تھکن اتارتی، نیندیں پوری کرتی، بے وقت اُٹھتی اور تیار ناشتوں کے مزے لیتی ہیں، وہیں ان کے ننّھے مُنّے ہنگاموں، شرارتوں کی ایک الگ دنیا آباد کردیتے ہیں۔ سارے کزنز مل کر خُوب کھیلتے کودتے، شورو غل مچاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان چھٹیوں میں تارکینِ وطن کی بھی ایک بڑی تعداد اپنوں کی محبّت میں گرفتار، خوشی کے قیمتی لمحات سمیٹنے اپنی مٹی ،اپنے درو دیوار دیکھنے کے لیے منہگے ٹکٹ لے کر مادرِ وطن کا رُخ کرتی ہے ۔الغرض، پاکستان سمیت پوری دنیا میں موسمِ گرما کی چھٹیوں کا مطلب ، ’’کہیں جانا، ٹھہرنا اور خُوب مزے کرنا‘‘ہے۔

گرمیوں کی چھٹیاں، بچپن کی یادوں میں شاید سب سے خوش گوار یاد ہوتی ہے، جو زندگی کے مختلف رستوںپر ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے، لیکن مہمانوں اور میزبانوں کو کچھ باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ جیسے، مہمان اور میزبان دونوں کو ایک دوسرے کی مصروفیت اور مالی حالت کا علم اور احساس ہونا چاہیے۔ مہمان کو بہت تکلّف اور بےحدبے تکلّفی دونوں انتہاؤں سے گریز کرنا چاہیے۔ سونے جاگنے کے اوقات میں میزبان کی آسانی کا خیال رکھیں، جو لوگ صبح جاب پر جاتے ہیں، ان کی ایک رُوٹین ہوتی ہے، جسے برقرار رکھنا ضروری ہے، تو کوشش کریں کہ آپ کی وجہ سے کسی کے معمولات متاثرنہ ہوں۔ مہمان خواتین کو میزبان خاتونِ خانہ کا کچن اور گھر کے کاموں میں ساتھ دینا، ہاتھ بٹانا چاہیے۔ 

یہ نہیں کہ خود تو بیٹھی رہیں اور اگلی آپ کی خدمتوں میں لگی رہے۔ ویسے بھی گھروں، رشتوں میں تلخیوں کی ایک بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ کچھ خواتین خود کو مہمان سمجھ کر دیورانیوں یا بھابھیوں سے خدمت کروانا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ نیز، بچّوں کو اپنی چیزیں سنبھالنے، بستر ٹھیک کرنے، اپنا کام خود کرنے کا طریقہ سلیقہ سکھائیں۔ کھانا لگاتے وقت میزبان کی مدد کریں، اسی طرح کھانے کے بعد میز اور کچن کی صفائی، برتن سمیٹنے اور دھونے میں برابر کی شرکت کریں۔ پھر اگر کھانا کسی ایک نے بنادیا ، تو چائے کوئی اور بنادے۔ بچّوں کو پانی کی بوتلیں بھرنے اور فریج میں رکھنے کی ڈیوٹی دے دیں۔ اس طرح میزبان کو بھی کچھ سہولت ہوجائے گی اور بچّے بھی مصروف رہیں گے۔ ناشتے کی تیاری ایک بڑا کام ہوتا ہے، تو چھٹیوں میں اگر خواتین مل جُل کر نرم گرم پراٹھے بنالیں، تو مزہ دوبالا ہوجائے گا۔

اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا ’’مہمان تین دن کے لیے ہے، اس کے بعد میزبان، جو کرے، وہ اس کی نیکی ہے، فرض نہیں۔‘‘تو اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے اچھے مہمان بنیں۔ علاوہ ازیں، مرد بھی اگر کہیں ٹھہریں، تو زبان اور نظر دونوں کی حفاظت کریں۔ گھر کی خواتین خواہ قریبی رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں، احترام اور احتیاط دونوں کا دامن تھامے رکھیں۔ بچّوں کی نوک جھونک یا لڑائی جھگڑوں میں بہت تحمّل اور برداشت کا مظاہرہ کریں۔ تلخی نہ دلوں میں آئے، نہ لہجوں میں کہ وقت توگزر جاتا ہے، مگر تلخیاں باقی رہ جاتی ہیں۔

جہاں مہمانوں کو کچھ باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، وہیں میزبانوں کو بھی مہمانوں کا خوش دلی سے استقبال کرنا چاہیے۔ بلاشبہ، مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ’’مہمان اپنا رزق ساتھ لاتا ہے۔‘‘ تو ہر وقت پیسوں کی تنگی اور خرچ کا حساب کتاب نہ کریں۔ پیسا تو ہاتھ کا میل ہے اور اللہ خرچ کرنے والوں کو بہت دیتا ہے۔ اللہ کے نبیﷺ کا ارشاد ہے ’’جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیےکہ مہمان کا اکرام کرے۔‘‘ 

حدیث نبویﷺ میں یہ بھی آتا ہے کہ ’’مہمان کا استقبال دروازے پر کیا جائے اور وقتِ رخصت بھی دروازے تک اسے خداحافظ کہا جائے۔‘‘ غرض، میزبان ہوں یا مہمان، دونوں دِلوں کو بڑا رکھیں کہ مِل جُل کر گزارا جانے والا وقت ہی زندگی کا سرمایہ ہوتا ہے۔ زندگی میں سب کچھ مل جاتا ہے، بس اپنوں کا ساتھ اور سچّی خوشیاں نہیں ملتیں، لہٰذا اِن گرمیوں کی چھٹیوں کو مِل جُل کراور رنجشیں، شکایتیں، شکوے بُھلا کر خوب خوش گوار بنائیں۔