• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر…پروفیسر احسن اقبال

9 مئی کو ایک’’سیاسی‘‘ رہنما کے عسکریت پسند کلٹ پیروکاروں نے ریاستِ پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز کرتے ہوئے، ریاست کی علامتوں پر پرتشدد حملے کیے اور ہمارے شہدا کی یاد میں تعمیر کی گئی یادگاروں کی توہین کی۔قوم یہ توقع رکھتی ہے کہ قانون اپنے راستہ اپنائے گا اور ان بہیمانہ افعال کے ذمہ داروں کو قانون کے مطابق اپنے اعمال کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ ہم جس وقت9 مئی کے واقعات سے سنبھلنے کی کوشش کر رہے ہیں، تو ایسے میں اس دن کے واقعات کے پیچھے کارفرما عوامل کا تنقیدی تجزیہ کرنا اور بطور ریاست اور معاشرے کے کچھ دروں بینی اہم ہو گی۔ ہمیں یہ پوچھنا چاہیے کہ ایک فرد، عمران خان کو یہ اجازت کیسے اور کیوں دی گئی کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کو پاکستان کی ریاست اور اس کے عوام پر ترجیح دے۔ عمران خان نے 1990 میں سیاست کا آغاز کیا؛ اس وقت وہ اسٹار کرکٹر تھا۔ لیکن 2018 سے قبل اسے ملکی سطح پر کوئی نمایاں انتخابی کامیابی نہیں ملی۔ کس چیز نے عمران خان کو پاکستان میں کلٹ لیڈر بننے دیا؟ عمران خان کے اس عروج کی وضاحت، عدلیہ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے چند سابقہ دھڑوں کی پالیسیوں کو سمجھے بغیر ممکن نہیں۔ فوج اور عدلیہ میں کچھ لوگوں نے نہ صرف اسے سیاسی اور مالی مدد فراہم کی بلکہ میڈیا کو قابو میں رکھنے کےلیے اس کا ساتھ دیا۔ انہوں نے نواز شریف صاحب کو منظر سے ہٹا کر اس کے لیے راستہ ہموار کیا۔2011کے بعد سے ’’عمران خان پروجیکٹ‘‘ نے لوگوں پر دو پیغامات کی بوچھاڑ کی۔ پہلا یہ کہ عمران خان کے سوا سب کرپٹ ہیں؛ اور دوسرا یہ کہ عمران خان مسیحا اور فرشتہ صفت دیانت دار رہنما ہے۔ عمران کو مثبت صحافت کا سامنا رہا اور اس کے سیاسی مخالفین کو اجتماعی میڈیا مہم کے ذریعے بدنام کیا گیا۔ لوگوں کے ذہنوں میں پرانی جماعتوں کے خلاف نفرت کا زہر بھرا گیا اور عمران خان کی فتح کا رستہ ہموار کیا گیا۔ 2018 کے عام انتخابات کے نتائج میں گڑ بڑ کی گئی اور عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے دھاندلی کی گئی۔ قصہ مختصر، فوجی اور عدالتی اسٹیبلشمنٹ میں موجود اس کے سرپرستوں اور پاکستانی میڈیا کے بڑے حصے کی مدد سے عمران خان ایک بے رحم کلٹ رہنما بن گیا۔کلٹ لیڈر ہونے کا کیا مطلب ہے؟ شخصیت کا کلٹ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب تنقید سے مبرا تعریف اور خوش آمد کے ذریعے کسی رہنما کو حقیقت سے ماورا شخصیت کے طور پر پیش کیا جائے۔ شخصیت کا کلٹ پیدا کرنے کے لیے پروپیگنڈے کا استعمال عمومی عمل ہے۔ ان رہنمائوں کو اکثر مافوق الفطرت، بہادر، دانا اور فرشتہ صفت انسان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر کسی رہنما کو مافوق الفطرت انسان کے طور پر دیکھا جانے لگے تو اس کا امکان کم رہ جاتا ہے کہ اس کے پیروکار اس کی پالیسیوں پر کوئی سوال اٹھائیں گے، تنقید کریں گے یا اس کی طاقت کو چیلنج کریں گے۔یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ عمران خان چاہے کتنی ہی مضحکہ خیز، کنٹراڈکٹری اور غیر منطقی بات کرے، اس کے کچھ پڑھے لکھے کارکن بھی اس سے اندھی عقیدت رکھتے اور اس کا دفاع کرتے ہیں۔ عمران خان جو بھی عمل کرے اس کے حمایتی اس کی توجیح پیش کرنے اور اس کے ہر عمل کو رومانوی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں عمران خان کسی پالیسی کے حوالے سے جو بھی نکتہ نظر رکھے اس کے کلٹ پیروکار آنکھیں بند کر کے اس پر یقین کریں گے۔تاریخی طور پر پاکستان میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان میں مذہبی و روحانی رہنمائوں کے کلٹ پیروکار ہیں لیکن پاکستان میں متنوع پارلیمانی جمہوریت کے لیے عمران خان کے حوالے سے جو بات انتہائی خطرناک ہے وہ اس کے نوفسطائیت اور مطلق العنانیت پر مبنی سیاسی عزائم ہیں۔ میں عمران خان کی کلٹ پالیسیوں کے چھ نمایاں پہلوئوں کی نشاندہی کرنا چاہوں گا جو آئینی جمہوری حکومت سے متضاد ہیں۔ اول، عمران خان نے خود کو ایک ایسے نجات دہندہ ’’ناقابل تسخیر‘‘ رہنما کے طور پر پیش کیا ہے جو کبھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا۔ حالانکہ انسان خطا کا پتلا ہے۔جو بات ہمیں مضبوط اور حوصلہ مند بناتی ہے وہ ہمارا اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا اور اپنے اعمال کی ذمہ داری قبول کرنا ہے۔ مثال کے طور پر نواز شریف صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے میثاقِ جمہوریت پر اتفاق کیا، جس نے پاکستان کو پارلیمانی جمہوریت کے حوالے سے آگے بڑھنے میں مدد فراہم کی۔ اگر عمران خان قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے بارے میں سنجیدہ تھا تو اسے وزارت عظمیٰ سے محروم ہونے کے بعد ان لوگوں سے سر عام معافی مانگنی چاہیے تھی جنھیں اس کے دور حکومت میں سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنایا گیا اور قید میں رکھا گیا۔ اس کے برعکس، اسے جب بھی اس معاملے پر سوال کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے سرے سے یہ اعتراف کرنے سے ہی انکار کیا کہ اس کے دور میں کسی کو سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنایا گیا۔ دوسرے لفظوں میں اس نے کبھی اپنی غلطیوں کا اعتراف ہی نہیں کیا کیونکہ وہ ایک کلٹ رہنما ہے جو نرگسیت کا شکار ہے۔دوم یہ کہ عمران خان سے وفاداری ہی سب سے بڑی بات ہے اور یہ اس کی اہلیت سے زیادہ اہم ہے۔ جب اس کے سیاسی مخالفین پر تنقید کی بات آئے تو وہ ’’میرٹ پر مبنی نظام‘‘ کے بارے میں بات کرنے سے نہیں چوکتا۔ لیکن اس نے اپنے دور میں کی گئی تقرریوں میں میرٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ مثال کے طور پر اس نے پنجاب اسمبلی میں سب سے کم اہلیت کے حامل رکن اسمبلی کو وزارت اعلیٰ کے لیے چنا؛ خیبر پختونخوا میں بھی یہی کچھ ہوا۔ عمران خان مکمل اختیارات چاہتا ہے سو وہ کم سے کم اہلیت کے حامل لوگوں کا تقرر کرتا ہے تاکہ ان پر اپنی مرضی مسلط کر سکے۔ اس کی کچن کیبنٹ ایسے نفسیاتی مریضوں سے بھری ہوئی تھی۔سوم، اپنے سیاسی مخالفین کو کمتر ثابت کرنے کے لیے وہ افسانہ طرازیوں اور سازشی نظریوں کی حمایت کرتا اور جھوٹ کو فروغ دیتا ہے۔ وزیر اعظم کی کرسی چھن جانے کے بعد عمران نے ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کی سازشی تھیوری گھڑی۔ پہلے تو اس نے اپنی حکومت سے محروم ہونے کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرایا اور اس کے بعد دوسروں کو الزام دینا شروع کر دیا۔ اس نے اس سے قبل بھی، 2013 کے انتخابات میں، نجم سیٹھی پر بغیر کسی ثبوت کے تیس نشستوں پر دھاندلی کا الزام لگایا تھا۔ جب سیٹھی صاحب نے عدالت میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تو وہ اپنے کہے سے پھر گیا۔ قصہ مختصر، عمران ایسا کچھ بھی کہہ سکتا ہے کہ جس سے اسے کوئی سیاسی فائدہ ہو یا اس کے مخالفین کو نقصان پہنچے۔ اس کی دنیا میں نظریے اور اخلاقیات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔چوتھی بات یہ کہ عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو ’’دشمن‘‘ /برا بنا کر پیش کرتا ہے کہ جن کو تہس نہس کر دینا چاہیے۔ سیاست کو بحث مباحثے، مزاکرات اور غور وخوض کا میدان سمجھنے کی بجائے، عمران خان اسے جہاد کا نام دیتا ہے، کہ جس میں وہ نیکوکار ہے اور اس کے سیاسی مخالفین برائی کی قوتیں ہیں۔ وہ قانون کی حکمرانی کی تکرار تو بہت کرتا ہے لیکن اس نے اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے ریاستی اداروں کو استعمال کیا۔ مثال کے طور پر یہ عمران خان کا دور تھا جب قومی اسمبلی کے ایک رکن رانا ثنااللہ کے خلاف اس لیے منشیات کا ناجائز مقدمہ بنایا گیا کیونکہ وہ خان کی پالیسیوں کا شدید ناقد تھا۔ ایف آئی اے کے سابقہ ڈی جی بشیر میمن نے سرعام یہ بات کہی ہے کہ کس طرح عمران خان نے انہیں کمزور مقدمات میں اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاری کا کہا۔پانچویں بات یہ کہ عمران خان نے ملک کی تمام تکالیف کے لیے سیاسی مخالفین کو قربانی کا بکرا بنایا۔ پاکستان کے معاشی اور قانونی نظام کو درپیش بنیادی ڈھانچے کے مسائل کی نشاندہی کی بجائے عمران خان نے پاکستان کو لاحق تمام امراض کا ذمہ دار سیاسی مخالفین کو ٹھہرایا ، جب کہ حقیقت میں پاکستان کو اس وقت جس شدید معاشی بحران کا سامنا ہے وہ اسی کے دور کی لاپروائی پر مبنی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اس نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے آئی ایم ایف کے پروگرام سے انحراف کیا اور پوری قوم کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔چھ، عمران خان نے اپنی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے دانش وروں اور صحافیوں کی ساکھ کو سر عام بدنام کیا۔ اگر آپ عمران خان کے بیانیے کو فروغ دیتے ہیں تو آپ کو دیانت دار اور قابل اعتبار صحافی گردانا جائے گا۔ اگر آپ اس پر سوال اٹھانے کی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو آپ کو بکا ہوا کہا جائے گا۔ یہ اسی کا دور تھا جس میں صحافیوں (اسد طور) پر تشدد کیا گیا، اغوا کیا گیا(مطیع اللہ جان)، گولی ماری گئی(ابصار عالم) اور پابندی لگائی (حامد میر، طلعت حسین اورنصرت جاوید)۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جنگ جیو گروپ کے چیف ایڈیٹر کو خان کے دورِ حکومت ہی میں قید میں رکھا گیا کیونکہ ان کی ادارتی پالیسیاں عمران خان کی خواہشات کے مطابق نہیں تھیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر عمران خان کے جتھے متعارف کروائے گئے، جنھوں نے ہر اس شخص کی ٹرولنگ کی جس نے اس کی پالیسیوں پر تنقید کی جرأت کی۔ان باتوں نے عمران خان کو ہر اس مخالف کے خلاف اپنے حمایتیوں میں نفرت پھیلانے میں مدد فراہم کی جو اس کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتا تھا۔ عمران کی کلٹ سیاست ان حمایتیوں کے معروف نعرے ’’عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے‘‘ کے قبضے میں ہے۔ کسی فرد کے لیے ریڈ لائن کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے عمران خان کو گرفتار کریں تو اس کے پیروکارمتشددانہ ردعمل کا مظاہرہ کریں۔ اس ضمن میں عمران خان نے اپنی جماعت کے اندر ایک متشدد عسکریت پسندانہ گروہ تشکیل دیا جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ لڑ سکتا تھا۔ سو، جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عدالتی احکامت پر عمل درآمد کی کوشش کی تو اس کے کلٹ پیروکاروں نے لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر ان پر پرتشدد حملے کیے۔تاہم9 مئی کو کسی بے ساختہ عمل کے طور پر نہیں دیکھ جا سکتا بلکہ یہ پاکستان میں نو فسطائی کلٹ سیاست کا حتمی نتیجہ تھا۔ تاہم، پاکستانی سیاست کا بنیادی تضاد پاکستان میں عمران خان کی نوفسطائی کلٹ سیاست اور کثیر الجماعتی پارلیمانی جمہوریت کے درمیان لڑائی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کون اب بھی اس کی نوفسطائی کلٹ سیاست کی حفاظت کر رہا ہے اور کون پاکستانی سیاست کے تکثیری کردار کی حفاظت کے لیے عمران خان کی نو فسطائی سیاست کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے۔عمران اس کثیر الجماعتی متنوع جمہوریت پر ہی حملہ آور نہیں ہوا بلکہ اس نے ملک کی فوجی تنصیبات اور ملک کے لیے جان دینے والوں پر حملہ کر کے پاکستان کی بنیادوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن ہم 9 مئی کے بعد بحیثیتِ قوم یکجان ہوئے ہیں کیونکہ عمران خان نے اپنے کلٹ پیروکاروں کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا تھا۔ غیر معمولی ہونے کے اس دماغی خلل نے تاریخ میں کئی لوگوں کو تباہ کیا اور ہم اپنی آنکھوں سے ایسا ہی ایک اور واقعہ رونما ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

ملک بھر سے سے مزید