• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تہذیبِ سخن (افتخار عارف کی شاعری کی روحانی جہات)

مصنّف: احمد جاوید

صفحات: 204، قیمت: 1200 روپے

ناشر: ایمل پبلی کیشنز، اسلام آباد۔

فون نمبر: 5548690- 0342

افتخار عارف کی شاعری کے محاسن پر مشتمل زیرِ نظر کتاب ’’دانش ٹی وی‘‘ کی اُن بارہ علمی نشستوں کا تحریری رُوپ ہے، جن میں ممتاز شاعر، صوفی، متکّلم اور دانش وَر، احمد جاوید نے خطاب فرمایا تھا۔ افتخار عارف کے بارے میں ایک بات عام طور پر مشہور ہے کہ اُن کی شاعری میں کربلا کا استعارہ بنیادی معنویّت رکھتا ہے۔ اِس حوالے سے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بہت تفصیل سے لکھ چُکے ہیں۔ احمد جاوید نے افتخار عارف کی شاعری کو اِس سے آگے دیکھنے اور دِکھانے کا فریضہ انجام دیا ہے۔ 

اُنہوں نے تاریخِ اسلام ، عقائد، تصوّف، علمِ کلام اور ادبیات کے معیارات پر افتخار عارف کی شاعری کا محاکمہ کیا ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں کہ کسی ایک شاعر پر اِتنی طویل علمی و فکری گفتگو کی جائے اور گفتگو بھی ایسی کہ جس کی زبان، اردو تنقید کے عام لسانی قرینے اور مروّج تنقیدی اصطلاحات سے یک سَر مختلف ہو اور جس میں بولنے والے کا تخلیقی شعور، بلند علمی تصوّرات سے ہم آہنگ ہو۔ اہم بات یہ ہے کہ کہیں بھی، کسی بات یا خیال کو دُہرایا نہیں گیا، اِتنی ضخیم و پُرحجم گفتگو میں تکرارِ خیال سے بچ جانا، کسی کرامت سے کم نہیں، کیوں کہ تقریر میں تحریر جیسے ارتکاز کی سہولت میسّر نہیں ہوتی، چوں کہ مذہبی شاعری کا تعلق ایمانیات سے ہوتا ہے، اِس لیے مذہبی شاعری میں اُن عظیم مذہبی ہستیوں کا ذکر ناگزیر ہے، جو ایمانیات کا مرکز ہیں۔ 

ان مذہبی ہستیوں سے شاعر کے قلبی رشتے کے حُسن اور گہرائی کو، جس دقّت نظری اور عالمانہ اسلوب میں احمد جاوید جیسے نکتہ آفریں اسکالر نے کھولا ہے، وہ بے مثال بھی ہے اور فکر انگیز بھی۔ یہ گفتگو نہ صرف افتخار عارف کی شاعری کے ناآشنا گوشے قاری پر منکشف کرتی ہے، بلکہ آفاقی و مذہبی شاعری سے متعلق نئے نئے سوالات بھی اُٹھاتی ہے۔ کتاب کا انتساب، سلیم احمد کے نام کیا گیا ہے، جو احمد جاوید کے استاد اور افتخار عارف کے ادبی مربّی تھے۔ ان تقریری بیٹھکوں کی ویڈیو ریکارڈنگ کو تحریری شکل میں لانے کا سہرا شاہد اعوان، صفدر رشید اور فلک شیر جیسے ادبی دوستوں کے سَر ہے۔ کتاب کے آغاز میں محمّد خالد مسعود اور ہارون الرشید کی آراء اور کتاب کی پُشت پر ڈاکٹر خورشید رضوی کی مختصر اور جامع رائے شامل کی گئی ہے۔ 

یہ کتاب افتخار عارف کی شاعری کی روحانی جہات کے ساتھ ساتھ اُن کی جمالیاتی، لسانی، اخلاقی اور اسلوبیاتی جہات کو بھی قاری پر روشن کرتی ہے۔ افتخار عارف کی شاعری پر کی جانے والی رفیع الشّان گفتگو، ایک ہم عصر شاعر کو، دوسرے ہم عصر قلم کار کا ارمغانِ محبّت بھی ہے۔ اُردو ناقدین کا ایک عرصے سے یہ رویّہ ہے کہ وہ ہم عصروں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ احمد جاوید نے اِس منفی روایت کو توڑا ہے اور اپنی جرأتِ اظہار اور تنقیدی بصیرت سے ادب کے راستے پر کچھ نئے نقوشِ قدم بنائے ہیں۔

کتاب ہر رُخ سے قابلِ مطالعہ اور خصوصاً نئی نسل کے لیے روشنیٔ فکر و نظر کا وسیلہ ہے۔کُل کتاب بارہ ابواب پر مشتمل ہے، جن کے عنوانات ملاحظہ فرمائیں۔ ایک فرد ایک شاعر، نقدِ غزل، کلچر اور شعر ، دیا اور خواب، شعر اور کچھ بڑے سوال، مقامِ عقیدت، کوئی شہہ سوار بھیج، کتاب اور روشنی، حرفِ شرف، پیادہ پا ہو جا، علیؓ کا عاشق کون، شہرِ علم کے دروازے پر۔