• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام، درحقیقت تسلیم اور سپردگی کا دین ہے۔ اِس دین کی اصل رُوح قربانی ہے، جس کا سلسلہ ہابیل کی قربانی سے شروع ہوا اور جو حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ کا بھی بہت بڑا امتحان تھا۔ یہ سلسلہ آگے بڑھتے ہوئے حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ، حضرت اسماعیل ذبیح اللہؑ اور حضرت ہاجرہؑ تک پہنچا۔حضرت ابراہیمؑ، جنہیں قرآنِ مجید نے’’اوّل المسلمین‘‘ قرار دیا ہے، اللہ کی راہ میں آگ میں پھینکے گئے اور جلا وطن کیے گئے۔ اُنھوں نے اپنی ذریت میں سے کچھ کو بےآب و گیاہ وادی میں صرف اللہ کے سہارے چھوڑا۔

اِن سب قربانیوں سے بڑھ کر اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اپنا خواب سچ کر دِکھانے کے لیے اپنے کم سِن اور چہیتے بیٹے، حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ حضرت اسماعیلؑ بھی قربان ہونے کے لیے تیار تھے اور حضرت ہاجرہؑ نے بھی صبر و شُکر کا دامن تھام رکھا تھا۔ یہ تینوں عظیم ہستیوں کے عزم و استقلال اور اللہ سے محبّت کا نتیجہ تھا کہ اُن کی قربانی قبول کی گئی اور اسے ذبحِ عظیم سے بدل دیا گیا۔ سنّتِ الٰہی یہی ہے کہ اللہ اپنے محبوب اور پیارے بندوں کو امتحانات سے گزارتا ہے۔

قرآنِ مجید کی سورۃ البقرہ کی آیت 214 میں ارشاد ہے’’کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ بہشت میں پہنچ ہی جاؤ گے، حالاں کہ ابھی تک تمہیں اگلے زمانے والوں کی سی حالت پیش نہیں آئی کہ اُنہیں طرح طرح کی تکالیف(فاقہ کشی، محتاجی) اور بیماری نے گھیر لیا تھا اور زلزلوں میں اِس قدر جھنجوڑے گئے کہ آخر(عاجز ہو کے ) پیغمبر اور ایمان والے، جو اُن کے ساتھ تھے، کہنے لگے (دیکھیے) اللہ کی مدد کب (ہوتی ) ہے۔ (گھبراؤ نہیں ) اللہ کی مدد یقیناً بہت قریب ہے۔‘‘ خلاصہ یہ ہے کہ قربانی کی عظمت کا راز اُن بلند مقاصد میں پوشیدہ ہے، جن کی حفاظت کے لیے قربانی دی جاتی ہے۔

کربلا میں دی گئی قربانیوں کی اِتنی طویل داستان ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود اس کی تازگی میں کمی آئی ہے اور نہ ہی اس کے انقلابی جوش و خروش پر زمانے کے تغیّرات نے اپنا کوئی اثر دِکھایا ہے۔ سیّد الشہداء، حضرت امام حسینؓ اور اُن کے رفقاء نے جس انداز میں راہِ حق میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، زمانہ اُس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ان شہداء میں ایک نمایاں نام حضرت عبّاس عَلم دارؓ کا بھی ہے۔ یہ وہ ہستی ہے، جس نے عَلم داری کے منصب کو وہ مقام عطا کردیا کہ آج اگر مطلقاً یعنی صرف’’ عَلم دار‘‘ کہا جائے، تو ذہنوں میں حضرت عبّاس ابنِ حیدرِ کرارؓ ہی کا تصوّر آتا ہے۔

تقریباً تمام مکاتب ِفکر کے علمائے کرام نے اُن روایات کو مستند تسلیم کیا ہے، جن میں حضور سرورِ کائناتؐ کی لسانِ مبارک سے واقعۂ کربلا کی پیشگی خبر دی گئی اور ان روایات کے ناقلین میں نام وَر صحابۂ کرامؓ اور اُمّہات المومنینؓ بھی شامل ہیں اور یہی سبب تھا کہ آقائے دو جہاںؐ، حضرت امام حسینؓ سے بہت زیادہ پیار کیا کرتے تھے۔ اُنہیں اپنے سینے پہ سُلاتے، اُن کے لیے ناقہ بنتے، سجدے کو طول دیتے اور فرماتے کہ’’حسینؓ مجھ سے ہیں اور مَیں، حسینؓ سے ہوں۔‘‘امیر المومنین، حضرت علی ابنِ ابی طالبؓ آنے والے حالات پر نظر رکھے ہو ئے تھے اور جانتے تھے کہ اسلام کو آمریت کے عفریت سے بچانے کے لیے بہت بڑی قربانی دینا پڑے گی۔ اور آپؓ یہ بات بھی جانتے تھے کہ اُن کے بیٹے، حضرت حسینؓ اس قربانی کے لیے منتخب کیے گئے ہیں۔ 

حیدرِ کرارؓ کی شدید خواہش تھی کہ جب کربلا کا معرکہ برپا ہو، تو امام حسینؓ کے مددگار زیادہ سے زیادہ ہوں اور آپؓ دُعا بھی فرماتے تھے کہ’’ اللہ مجھے ایک ایسا بیٹا عطا فرما، جو کربلا میں میری نیابت کا حق ادا کرسکے۔‘‘ اور اسی خواہش کی تکمیل کے لیے آپؓ نے اپنے بھائی، حضرت عقیلؓ کو، جو انساب الاعراب کے ماہر سمجھے جاتے تھے، ذمّے داری سونپی کہ وہ کسی ایسے بہادر قبیلے کی خاتون تلاش کریں، جس کے اسلاف میں دُور دُور تک بزدلی کا شائبہ نہ ہو تاکہ آپؓ وہاں عقد کرسکیں۔ حضرت عقیلؓ کی کوششوں سے قبیلہ بنی کلاب کی خاتون، فاطمہ بنت حزام سے(جو تاریخ میں فاطمہ کلابیہ اور اُمّ البنین کے القاب سے پہچانی جاتی ہیں) حضرت علی المرتضیٰ ؓ کا عقد ہوا اور اس مبارک عقد کے نتیجے میں حضرت عبّاس علم دارؓ کی ولادت ہوئی۔ والد نے آپؓ کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر خاص توجّہ دی۔

دوسری جانب، حضرت عباسؓ کو اپنی والدۂ گرامی سے بھی ایک ہی درس مل رہا تھا کہ حسینؓ فرزندِ رسولؐ ہیں، فرزندِ فاطمہ زہراؓ ہیں اور تم مجھ جیسی کنیزِ فاطمہ زہراؓ کے بیٹے ہو، تم حسینؓ کے بھائی نہیں، بلکہ غلام ہو۔ یہی سبب ہے کہ جب28 رجب،60 ہجری کو حسینی قافلہ یزیدیت کو ابدی ذلّت و رسوائی سے دوچار کرنے کے لیے مدینے سے مکّہ اور پھر مکّے سے کربلا کے لیے روانہ ہونے لگا، تو اُمّ البنین نے اپنے تمام بیٹوں، خاص طور پر حضرت عبّاسؓ سے یہی فرمایا کہ’’ میرے بیٹو! تمہارے ہوتے ہوئے فرزندِ رسولؐ، یعنی حضرت امام حسینؓ پرکوئی آنچ نہیں آنی چاہیے۔‘‘

حضرت عبّاسؓ نے ماں سے کیے وعدے کو ایسا نبھایا کہ کربلا کے میدان میں وفا کو نیا مفہوم دے دیا۔ اب نام عبّاسؓ اور لفظ وفا کو ایک دوسرے کا مترادف قرار دے دیا جائے، تو کسی کو تعجّب نہیں ہونا چاہیے۔ ایک طرف آپؓ نے سقائے حرم ہونے کا حق ادا کیا کہ جب تک جان میں جان تھی، مشکِ سکینہ کا دفاع کرتے رہے، تو دوسری جانب، کٹے ہوئے بازوؤں کو ملا کر عَلم کو گرنے سے بچانے کی کوشش کرتے رہے۔یہاں ایک حیرت انگیز بات کی بھی تشریح کرتے چلیں کہ آپؓ کو شہید ہونے کے باوجود غازی کیوں کہا جاتا ہے؟ دراصل، آپؓ کو اِس لقب سے اِس لیے پکارا جاتا ہے کہ آپؓ نے یزیدی لشکر کو گھاٹ سے پسپا کرکے نہر علقمہ پر قبضہ کرلیا تھا اور وقتِ شہادت اپنے سردار، حضرت امام حسینؓ کو وصیّت کی تھی کہ’’ میرے لاشے کو خیمے میں نہ لے جائیے گا، بلکہ یہیں علقمہ کے ساحل پر چھوڑ دیجیے گا۔‘‘ اِس وصیّت کی دوسری وجوہ بھی ہو سکتی ہیں، مگر آج ایک بڑی وجہ دنیا کے سامنے ہے کہ علقمہ پر آج تک عبّاسؓ کا عَلم لہرارہا ہے اور یہ مناظر تقریباً سارا میڈیا ہر سال محرّم میں دِکھاتا ہے۔ نہر پر اسی قبضے کے سبب آپؓ کو غازی عبّاسؓ اور غازی عَلم دار کہا جاتا ہے۔

آپؓ کا ایک لقب ’’قمر بنی ہاشم‘‘ بھی ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ آپؓ کم سِنی ہی میں قد وقامت میں اپنے دوسرے ہم سن وسال بچّوں سے بڑے دِکھائی دیتے تھے اور بہت حَسین تھے۔ ایک جنگ میں، جب کہ آپؓ پندرہ سال سے زیادہ کے نہ تھے، دشمنانِ اسلام سے لڑنے کے لیے رجز پڑھتے ہوئے لشکر سے باہر نکلے، تو آپؓ کا حُسن اور مردانہ وجاہت دیکھ کر دونوں لشکروں کے سپاہی مبہوت رہ گئے۔ حضرت علیؓ نے جب لوگوں کی یہ کیفیت دیکھی، تو مُسکرا کر بلند آواز سے فرمایا’’یہ (عبّاس) ہم بنی ہاشم کا چاند ہے۔‘‘ آج بھی جب فوج میں کسی کمپنی یا پلاٹُون کو عَلم دیا جاتا ہے، تو پہلے عَلم دار کو عَلم داروں کی تاریخ بتائی جاتی ہے اور اس تاریخ میں سب سے نمایاں طور پر عبّاس علم دارؓ کی شجاعت کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ عَلم سنبھالنے والے کو احساس رہے کہ عَلم داری کوئی معمولی منصب نہیں ہے۔