کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ نگراں وزیراعظم کیلئے پارٹی نے ابھی کسی نام پر اتفاق نہیں کیا، اسمبلیاں دودن پہلے توڑنے میں کوئی قباحت نہیں ہے الیکشن کیلئے 90دن ہونگے تو ہمارے پاس انتخابی مہم چلانے کا مناسب وقت ہوگا،میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے نیب میں آگے بڑھنے والے 190ملین پاؤنڈز کیس میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے نیا دعویٰ کردیا ہے مگر حقائق اس دعوے کے برعکس ہیں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ سوال کے مطابق جواب دیا جاتا ہے اس جواب سے کئی مطلب نکال جاسکتے ہیں، نگراں وزیراعظم کا چناؤ اتفاق رائے سے ہوگا، نگراں وزیراعظم کیلئے پہلے اتحادیوں پھر اپوزیشن لیڈر سے مشاورت ہوگی، اتحادیوں اور اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے بعد نگراں وزیراعظم کا نام سامنے آجائے گا، نگراں وزیراعظم کیلئے پارٹی نے ابھی کسی نام پر اتفاق نہیں کیا، اسحاق ڈار نے بھی یہی کہا ہے پارٹی اتفاق رائے سے فیصلہ کرے گی، نگراں وزیراعظم پر اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت جاری ہے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ نارمل حالات ہوتے تو نگراں حکومت کے اختیارات سے متعلق قانون سازی کی ضرورت پیش نہیں آتی، آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے ہم غیرمعمولی صورتحال میں ہیں، آئی ایم ایف کا 9ماہ کا اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ ہے، ہمیں ہر ہفتے صورتحال مانیٹر کر کے درست اقدامات کرنا ہوتے ہیں ، اس صورتحال میں تین مہینے کیلئے معیشت کو آٹو پائلٹ پر نہیں ڈالا جاسکتا ، حکومت بیرونی سرمایہ کاری کا کوئی معاہدہ کرتی ہے تو انہیں تین ماہ انتظار کیلئے نہیں کہہ سکتے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومتی وزراء و اراکین حکومتی مصروفیات کی وجہ سے حلقوں میں نہیں جاسکے، الیکشن کیلئے 90دن ہوں گے تو ہمارے پاس انتخابی مہم چلانے کا مناسب وقت ہوگا، اسمبلیاں دودن پہلے توڑنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، حکومتی اتحاد نے غیرمعمولی حالات میں ملکی معیشت سنبھالی ہے ہمیں لوگوں سے رابطہ کرنے کیلئے وقت ملنا چاہئے۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے نیب میں آگے بڑھنے والے 190ملین پاؤنڈز کیس میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے نیا دعویٰ کردیا ہے مگر حقائق اس دعوے کے برعکس ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ نیب نے بزنس ٹائیکون کا کیس 2020ء میں بند کردیا تھا، چیئرمین پی ٹی آئی نے ٹوئٹ کی ہے کہ 2020ء میں نیب نے این سی اے اور بزنس ٹائیکون کے درمیان لین دین کی تحقیقات کیں اور انکوائری بند کردی گئی، چنانچہ القادر ٹرسٹ کا مقدمہ تو محض مجھے انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے کھولا گیا حالانکہ اس کی سرے سے کوئی بنیاد ہی موجود نہیں تھی، چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید لکھا کہ نیب کو صحیح معنوں میں اس بات کی تحقیق کرنی چاہئے کہ حسن نواز کی جانب سے دگنی قیمت پر بزنس ٹائیکون کو اس جائیداد کی فروخت ہوئی جس میں ممکنہ طور پر شریف خاندان کے حوالے سے کک بیکس کے اشارے ملتے ہیں۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ 190ملین پاؤنڈز کیس میں شہزاد اکبر بھی ملزم ہیں انہوں نے بھی اپنے دفاع میں نیب کی کچھ دستاویزات ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ این سی اے 190ملین پاؤنڈز کیس چکناچور ہوگیا، نیب 2020ء میں اس حقیقت سے آگاہ تھا کہ اس معاہدے کے تحت پیسے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آنے تھے، سارا فساد ون ہائیڈ پارک کو ڈبل قیمت پر بیچنا تھا،نیب 2020ء میں اس کیس کو باقاعدہ بند کرچکا تھا، کیا نیب نے حسن نواز سے 80ملین پاؤنڈز کی ریکوری کرلی ؟۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے پیش کیے گئے دفاع میں دو اہم مسئلے ہیں، پہلا مسئلہ یہ ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی اپنی حکومت میں نیب کی طرف سے اس کیس کو شکایت کی تصدیق کے مرحلہ پر بند کرنا اپنے آپ میں ایک اسکینڈل ہے، دوسرا معاملہ ان کے موقف کو جھوٹا ثابت کررہا ہے وہ یہ ہے کہ نیب نے 2020 ء میں جو شکایت بند کی تھی وہ کیس الگ نوعیت کا تھا، وہ معاملہ نہ چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف تھا، نہ اس میں بشریٰ بی بی کا ذکر تھا نہ القادر ٹرسٹ کی بات تھی ،نہ ہی القادر ٹرسٹ کیس کے حقائق اس طرح اس وقت سامنے آئے تھے، نہ ہی اس میں کابینہ کا کردار شامل تھا اور نہ ہی اس میں شہزاد اکبرکی بات کی گئی تھی، دلچسپ بات یہ ہے کہ نیب میٹنگ کے منٹس میں شکایت کی تصدیق کے مرحلہ پر کہیں بھی چیئرمین پی ٹی آئی، القادر ٹرسٹ اور کابینہ سے منظوری کا ذکر نہیں ہے، اس کا صاف مطلب ہے کہ یہ کمپلینٹ ویریفکیشن چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف بطور عوامی عہدیدار رشوت لینے سے متعلق نہیں تھی بلکہ بزنس ٹائیکون کی ٹرانزیکشن سے متعلق تھی جسے سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال کی سربراہی میں اس نیب کی طرف سے شکایت کی تصدیق کے مرحلہ پر ہی بند کردیا گیا جو اسی اسٹیج پر لوگوں کو مہینوں مہینوں تک گرفتار کرتی تھی، اس سے نہ صرف سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال پر سوالات اٹھتے تھے بلکہ خود چیئرمین پی ٹی آئی پر بھی سنگین سوالات اٹھتے تھے، آج عمران خان موجودہ حکومت میں نیب کیسز بند ہونے پر تنقید کررہے ہیں لیکن اپنی حکومت میں اتنے بڑے اسکینڈل کو صرف شکایت کے مرحلہ پر نیب کی جانب سے بند کیے جانے پر خود کو کلین چٹ دے رہے ہیں۔