اسلام آباد(ٹی وی رپورٹ) پی ٹی آئی حکومت کے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے نیا پینڈورا باکس کھول دیا جس میں انہوں نے کہا کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت چلتی رہتی تو مدت ختم ہونے تک ملک معاشی طور پر تباہ ہو جاتا‘ہم چیئرمین پی ٹی آئی کو مشورہ دیتے تھے مگر وہ اس وقت کچھ سننے کے موڈ میں نہیں تھے‘(ن) لیگ کے ارکان کی ٹیکس فائلیں مانگی جاتی تھیں‘میں اس بات پر قائل ہوچکاہوں کہ مافیاز حکومتوں کو چلاتے ہیں‘ عمران خان نے کبھی نہیں کہا کیس کھولو‘رٹیلرز بھی مافیا ہیں ‘ہاتھ ڈالو تو شٹرزبندکردیتے ہیں‘ہماری کوئی حکومت اتنی طاقتور نہیں ہوتی کہ شٹرز پاور سے لڑسکے‘بعض دفعہ تومیں وزیراعظم کی بے چارگی دیکھا کرتا تھا‘ کوئی سیاسی حکومت زرعی انکم ٹیکس میں دلچسپی نہیں رکھتی ‘ دسمبر تک تو پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہوگا ‘آگے بہت پریشان کن نظرآرہاہے‘آئی ایم ایف نے آپ کو کارنر میں کھڑا کردیا ہے کہ مارچ میں سخت پروگرام میں آنا ہے‘ 2023 میں جوبھی الیکشن جیتےگامعاشی لحاظ سےبہت بدقسمت ہوگا ۔ جیونیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے شبر زیدی نے کہا کہ شہزاد اکبر ایک صوفے پر بیٹھ جاتے تھے‘ چیئرمین پی ٹی آئی انہیں بلاتے تھے اور کہتے تھے کہ شہزاد یہ کہہ رہا ہے ، بتاؤ کیا کرنا ہے۔ شبر زیدی نے مزید بتایا کہ انہوں نے ملتان کے بڑے زمیندار کو نوٹس بھیجا تو شاہ محمود قریشی کی قیادت میں 40 اراکین اسمبلی آگئے، نصراللہ دریشک نے کہا کہ اس چکر میں مت پڑو‘یہ تمہارے بس کا کام نہیں ۔ جنوبی پنجاب کے ایم این ایز سے لڑ کر کوئی حکومت رہ نہیں سکتی ‘تمباکو مافیا کو ٹیکس نیٹ میں لانے لگے تو اسد قیصر کے ساتھ ایم این ایز آگئے اور کہا وہ ٹیکس نہیں دے سکتے‘قبائلی علاقوں میں اسٹیل ری رولنگ ملز پر ہاتھ ڈالا تو20فاٹا سینیٹرز چیئرمین تحریک انصاف کے پاس پہنچ گئے کہ شبر زیدی کو روکیں۔یہ بھی ایک چیز تھی جس پر میرا وزیراعظم سے اختلاف ہوا‘ شبرزیدی کا کہنا تھاکہ ٹریڈرز جب ٹیکس میں جائیں گے تو پورا کاروبار عوام کے ساتھ کھل جائے گا‘لاہوراورپنڈی کےدو چاربڑے ٹریڈرزتھےانہوںنےکہاکہ کسی بھی حال میں ٹیکس نہیں دیں گے‘شبرزیدی نےمزیدبتایاکہ ڈی جی سی کے ساتھ میٹنگ میں ٹریڈرز کے نمایندے موجود تھے‘ٹریڈرزکا نمایندہ کھڑاہوا اور کہاکہ میں 100 روپےسیل پر50 پیسا ٹیکس دیتاہوں‘مجھ سے 100روپے سیل پر15 روپے ٹیکس مانگاجارہا ہے میں نہیں دونگاجو مرضی کرلیں‘ڈی جی سی صاحب نےٹریڈرزکوکہاکہ ابھی ہڑتال نہ کریں بیٹھ کر بات کرینگے‘سابق چیئرمین ایف بی آرنے کہاکہ اگر آپ شٹرزپاور سےلڑنے پر تیار نہیں تو ٹیکس نظام ٹھیک نہیں ہوسکتا‘ہماری کوئی حکومت اتنی طاقتور نہیں ہوتی کہ شٹرز پاور سے لڑسکے‘ریٹیلرز ایک بازار مافیا ہے ان کو ہاتھ ڈالتے ہیں تو شٹرز بند کردیتے ہیں‘ ریٹیلرزکے ساتھ ڈیڈ لاک ہواتھا، ان کا اور آڑھتی کا ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے‘کراچی کے ٹریڈرز کہہ رہے تھے کہ کوئی بازار والا آپ کو ٹیکس نہیں دے گا‘بعض دفعہ تومیں وزیراعظم کی بے چارگی دیکھا کرتاتھا‘کوئی سیاسی حکومت زرعی انکم ٹیکس میں دلچسپی نہیں رکھتی ‘ سابق وزیراعظم نےکہاکہ تم جو کرسکتے ہو کرو میں فضل الرحمان کے دھرنے سےخوفزدہ ہوں۔آٹے کی قلت اس وقت ہوتی ہے جب آتا افغانستان جاتاہے ‘شبرزیدی نے بتایاکہ دسمبر تک تو پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہوگا ‘آگے بہت پریشان کن نظرآرہاہے‘ابھی آئی ایم ایف والے کھل کر سامنے نہیں آئے ‘آئی ایم ایف والوں نے جو کاغذ بنا کر دیا ہے وہ آپ کی فیور کی ہے ‘جب مارچ 2024 آئے گا تب آئی ایم ایف بات کرے گا کہ ان کا کیا ارادہ ہے‘پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مارکیٹ سے پیسے اٹھانے پڑیں گے‘آئی ایم ایف نے آپ کو کارنر میں کھڑا کردیا ہے کہ مارچ میں سخت پروگرام میں آنا ہے‘میں نےکہاتھاکہ 2023 میں جوبھی الیکشن جیتےگامعاشی لحاظ سےبہت بدقسمت ہوگا، آئی ایم ایف کےپروگرام ڈیفالٹ سےتو بچالیتے ہیں مگر عوام کیلئے سخت ہوتےہیں‘میرا خیال ہے کہ مارچ 2024 میں آئی ایم ایف سختی سے پیش آئے گا‘مارچ 2024 میں پاکستان کا یس اور نو ہے۔ شاہ زیب خانزادہ :اس وقت ملک کے عوام تاریخی مہنگائی سے پریشان ہیں اپوزیشن میں مہنگائی کے خلاف کمپین کرنے والی پی ڈی ایم حکومت کے دور میں عوام بدترین مہنگائی سے گزر رہے ہیں چینی بجلی آٹا کھانے پینے کی دیگر اشیا کی مہنگائی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد بجلی کی قیمتیں ہائی ایسٹ لیپ کے لئے 50 روپے فی یونٹ سے تجاوز کرگئی ہیں کیونکہ بجلی کے بلوں میں عوام 30 فیصد رقم تو صرف ٹیکس کی مد میں ادا کرتے ہیں اور موجودہ حکومت ٹیکس نہ دینے والے سیکٹر سے ٹیکس لینے کے بجائے پہلے سے ٹیکس دینے والے عوام پر بوجھ میں اضافہ کئے جارہی ہے زراعت سے منسلک بڑے بڑے زمیندار پراپرٹی اور کنسٹرکشن سے منسلک کاروبار اور ریٹیلرز پر حکومت تنخواہ دار طبقے کی طرح ٹیکس لگانے کو تیار نہیں ہے وزیراعظم شہبازشریف ملک کو پیروں پر کھڑا کرنے کے دعوے تو کرتے ہیں مگر اقدامات وہ کررہے ہیں جس سے پہلے سے مہنگائی سے پیسے ہوئے تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس لگا کر اس کی کمر توڑ رہے ہیں شہباز رعنا کی خبر کے مطابق ملک میں تنخواہ دار طبقہ ایکسپوٹرز اور ریٹیلرز سے تقریباً 2 سو فیصد زیادہ ٹیکس دیتا ہے گزشتہ مالی سال میں بھی تنخواہ دار طبقے نے 264ارب روپے ٹیکس دیاجبکہ ایکسپورٹرز اور ریٹیلرز نے ملا کے صرف 89.5 ارب روپے ٹیکس دیاجو تنخواہ دار طبقے سے 175 ارب روپے کم ہے‘ ایکسپورٹرز نے 27.7 ارب ڈالر ز کی برآمدات کیں جبکہ صرف 74 ارب روپے ٹیکس ادا کیا جب کہ ریٹیلرز نے صرف 15.6 ارب روپے ٹیکس دیاجوکہ ملک کی ٹوٹل انکم ٹیکس کلیکشن کا صرف 0.4 فیصد ہے‘ حالانکہ ریٹیل سیکٹر کا معیشت میں حصہ 19 فیصد ہے حالیہ بجٹ میں حکومت نے تنخواہ دار طبقے کے ٹیکسز میں تو اضافہ کردیا ہے مگر 5000 ریٹیلرز کو ان کی رجسٹریشن کی شرائط آسان کرکے آزاد چھوڑ دیا ہے جبکہ زراعت کا ملک کی معیشت میں حصہ 22 فیصد سے زیادہ ہے مگر صوبوں نے اس سیکٹر سے 4 ارب روپے سے بھی کم ٹیکس اکٹھا کیا ہے غریب کسانوں پر ٹیکس نہ لگاےئے مگر بڑے بڑے زمینداروں پر تو لگاےئے بھارت کا ایک شہر پاکستان کے پورے کے پورے صوبوں سے زیادہ پراپرٹی ٹیکس اکٹھا کرتا ہے مگر حکومتیں ملک کو پیروں پر کھڑا کرنے کے دعوے کئے جارہی ہیں اور پہلے سے ٹیکس دینے والے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس ریٹ کا بوجھ بڑھائی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 10 فیصد بھی نہیں ہے جبکہ بھارت کا 16 فیصد ‘ نیپال کا 17 فیصد ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلسل خسارے کئے جارہا ہے اور ملک کا ٹوٹل قرضہ گزشتہ پانچ سالوں میں 24 ہزار روپے سے بڑھ کر 59 ہزار ارب روپے پر پہنچ گیا ہے ایسے چلے گا تو ملک کیسے چلے گا ہمارے ساتھ جو شخصیت موجود ہیں وہ خود چےئرمین ایف بی آر رہے اور انہو ں نے چیزیں بدلنے کی کوشش کی مگر خود ان کے بقول اتنی زیادہ ان کو اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑا ڈپریشن کا وہ شکار ہوگئے ساتھ ہی یہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے دسمبر 2021ء میں کہا تھا کہ پاکستان ایک Going concernedنہیں ہے ملک ڈیفالٹ کرنے جارہا ہے اور جب انہو ں نے کہا تو ان پر ہر طرف سے تنقید ہونے لگی مگر پھر تین چار مہینے بعد ہی وہ سب کچھ سب نظر آنے لگا کہ یہ تو ملک واقعی ڈیفالٹ کی طرف جارہاہے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قابو سے باہر ہورہا ہے ہمارے ساتھ شبر زیدی صاحب موجود ہیں شبر زیدی صاحب بہت شکریہ ہمیں شو میں جوائن کرنے کے لئے شبر زیدی صاحب تنخواہ دار طبقہ کیا کرے وہ بھی ریٹیلرز کی طرح اس کے علاوہ ایگری کلچر لابی کی طرح بڑے بڑے انڈسٹریلالسٹ کی طرح ایک اپنی لابی بنالے اور لابی بناکے پھر پریشرائز کرے تو ہی انہیں کوئی ریلیف ملے گا کیا کرے ؟ شبر زیدی:…ان کا کوئی پریشر نہیں ہے تو جو بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے انہیں برداشت کرنا پڑتا ہے Simple as thatاور جہاں تک آپ ریٹیلر کی بات کررہے ہیں میرا جو ڈیڈ لاک ہوا تھا وہ ریٹیلر کے ساتھ ہی ہوا تھا اگر آپ کو یاد ہے تو اگر جب تک آپ ریٹیلرز آپ نے ریٹیلر کی بات کی میں ریٹیلر کے ساتھ ایک اور چیز Involve کرتا ہوں وہ ہے آڑھتی جو ایگری کلچر Commodityمیں ڈیل کرتا ہے جو کہ کسان سے لیتا ہے اور بازار میں بیچتا ہے وہ اور ریٹیلر مل کے تقریباً چالیس فیصد پاکستان کی اکنامک کو ڈیل کرتے ہیں اور ان کا ٹیکس نہیں ہونے کے برابر ہے ٹھیک ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ان سے ٹیکس کیوں اس لئے نہیں لے سکتے کہ وہ ایک بازار مافیا ہے اگر آپ ان کو ذرا سا بھی ہاتھ ڈالتے ہیں تو وہ شٹر بند کردیتے ہیں اور کوئی بھی حکومت ہماری اتنی طاقت ور نہیں ہوتی چاہے وہ ملٹری گورنمنٹ ہے کہ وہ شٹر پاورز سے لڑ سکے بڑی Simple سی بات ہے اس میں کوئی مجھے کنفیوژن نہیں ہے اور اگر آپ شٹر پاور سے لڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو پاکستان کا ٹیکس نظام صحیح نہیں ہوسکتا یہ بالکل کلےئر بات ہے ۔ شاہ زیب خانزادہ:…آپ نے دیکھا مفتاح اسماعیل صاحب نے کوشش کی تو مریم نواز صاحبہ نے ٹوئٹ کردیا اور مفتاح اسماعیل صاحب کامیاب نہیں ہوے اور جب آپ نے کوشش کی تو آپ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ آپ کی جو میٹنگ ہوئی وہ ایک سویلین ادارے کی بلڈنگ میں نہیں ہوئی پھر ایک عسکری ادارے کی بلڈنگ میں ہوئی پھر بھی معاملات نہیں ہوئے وہ کیا ہوا وہ ؟ شبرزیدی:… میں بتاتا ہوں میری جو میٹنگ ڈکٹیٹرز کے ساتھ جب میرا ڈیڈ لاک ہوگیا تو اسی زمانے میں فضل الرحمان صاحب کا دھرنا چل رہا تھا تو جب چیزیں ٹینشن میں پہنچ گئیں تو مجھے ایک عسکری ادارے کے ڈی جی سی کے ساتھ میری میٹنگ ہوئی اس کمرے میں میٹنگ ہوئی میں تھا اور ٹریڈرز کے نمائندے تھے اور انہوں نے مطلب آپ ان کی جرات دیکھیں کہ وہ ٹریڈر کا نمائندہ کھڑا ہوا ڈی جی سی کے اسٹاف کے سامنے اور اس نے کہا سر میری سیل سو روپے ہے اور میں سیل پر پچاس پیسے دیتا ہوں سو روپے کی سیل پر پچاس پیسے ٹیکس دیتا ہوں جو بجلی کا میٹر ہے بس اب شبر صاحب مجھ سے سو پر پندرہ روپے مانگ رہے ہیں یہ تو میں نہیں دوں گا آپ جو مرضی کرلیں انہوں نے کہا سر آپ بھی ہیں آپ جو مرضی کر لیں میں یہ سو روپے کی میری سیل ہے اور اس پر میں دیتا ہوں 0.25 اور 0.5 اس سے زیادہ میں نہیں دوں گا شبر صاحب مجھے کہہ رہے ہیں کہ سو پر دس مانگنا ہے یہ آپ کے سامنے بیٹھے ہیں ان سے فیصلہ کرلیں میں نے نہیں دینا Otherwise ہڑتال جاری ہے آپ کا ذمہ ہے آپ کیسے سنبھالیں گے اورWith all due respectوہ ڈی جی سی صاحب نے انہیں کہا کہ ٹھیک ہے ابھی آپ مجھے کہا کہ آپ اس کو ڈیفر کریں ہم آپ سے بعد میں بات کریں گے۔ شاہ زیب خانزادہ :…وہی جنرل فیض حمید ڈی جی سی تھے ؟ شبر زیدی:… نہیں نہیں ڈی جی سی نہیں تھے اس وقت وہ جنرل فیض حمید آئی ایس آئی چیف ہوتے تھے ڈی جی سی کوئی اور صاحب تھے ۔ شاہ زیب خانزادہ:…اوکے انہوں نے آپ سے کہا کہ بس اس کو جانے دیں بعد میں دیکھیں گے؟ شبر زیدی:… نہیں نہیں انہوں نے یہ کہا کہ ابھی آپ اس کو ڈیفر کریں وہ ہڑتال پر جارہے تھے ا نہیں کہا آپ ہڑتال نہیں کریں مجھے کہا کہ آپ ڈیفر کریں پھر ہم بیٹھ کے بات کریں گے ۔ شاہ زیب خانزادہ:…اور وزیراعظم عمران خان اس سب میں کیا کررہے تھے ؟ شبر زیدی:…وزیراعظم عمران خان اس سب میں یہ کہہ رہے تھے کہ تم جو کرسکتے ہو کرو میں اس میں مجھے کہا کہ میں فضل الرحمان کے دھرنے سے بڑا خوفزدہ ہوں ۔ شاہ زیب خانزادہ:…خوفزدہ ہوں تو اس لئے نہ کرو ؟ شبر زیدی:… Technically yes نہ کرو مطلب اس وقت نہیں کرو اس کو ڈیفر کرو انہوں نے پھر مجھے کہا کہ تم جہانگیرترین کے ساتھ جاکے بیٹھ کے ان کے ساتھ Negotiateکرو اور پھر Negotiationمیں یہی ہوا کہ انہوں نے کہا ٹھیک ہے آپ ذرا اس کو ایک دو مہینے ڈیفر کریں پھر ہم نے ایک ان کے ساتھ ایگریمنٹ کیا وہ بھی بڑا لوز ایگریمنٹ تھا وہ نہیں مان رہے تھے مگر اس میں لاہور کے دو چار بڑے تھے اور پنڈی والے تھے انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی حال میں ٹیکس نہیں دیں گے میں نے کہا ہم ڈیفر نہیں کریں گے اور پھر اگر آپ کو یاد ہو تو کراچی گورنر ہاؤس میں جب میں نے آیا تھا اس وقت عمران خان کے ساتھ تو کراچی کے ٹریڈرز نے میرے ساتھ فزیکل بدتمیزی کی تھی اگر آپ کو یاد ہو تو انہوں نے مطلب تقریباً اور وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں ٹیکس نہیں دینا ہم بازار والا کوئی ٹیکس نہیں دے گا آپ کو اچھا دوسری بات میں آپ کو یہ بتادوں کہ جو بازار کراچی کا لیاقت آباد کا بازار ہے اس کا ٹیکس پورے لاہور کے ٹیکس سے زیادہ ہے یہاں بھی بڑا فرق ہے اگر پشاور دیتا ہے دس روپے تو لاہور دیتا ہے بیس روپے اور کراچی دیتا ہے پچاس روپے مطلب یہ ریشو اس طرح ہے مطلب یہاں پر یہ بھی آپ کو جتنا آپ نارتھ میں جاتے جائیں گے ٹیکس کلیکشن دکانداروں کی کم ہوتی جائے گی ۔ شاہ زیب خانزادہ:…اور اس میں بھی وہی سارے پولیٹیکل انٹرسٹ ڈومینیٹ کرتے ہیں ؟ شبر زیدی :…پولیٹیکل ڈومینیٹ کرتے ہیں نہیں اس میں سب سے بڑی بات جو ہے کہ جو انجمن تاجران یا ریٹیلرز ا ن کی ایسوسی ایشنز ہیں دیکھئے اس میں دو تین بڑے مسائل ہیں ایک چیز آپ اس کو اور سمجھیں یہ جب ٹیکس میں جائیں گے نا تو ان کا پورا کاروبار پبلک کے سامنے کھل جائے گا یہ اسمگلنگ گڈز میں ڈیل کررہے ہیں یہ انڈر رائسنگ گڈ میں ڈیل کررہے ہیں یہ ان ٹیکس گڈز میں ڈیل کررہے ہیں یہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی گڈز میں ڈیل کررہے ہیں کراچی میں کتنی ساری چیزیں ہیں جو اسمگل گڈز مل تی ہے تو یہ کسی قسم کی ڈاکیومنٹیشن میں جانے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں دیکھئے ان کے دو ایشو ہیں ایک تو ایشو یہ ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دینا چاہتے دوسرا ان کا یہ ہے کہ کراچی میں آپ چلے جائیں بازاروں میں پورے کے پورے پلازہ کھلے ہوئے ہیں میں مثال دیتا ہوں ایک کراچی میں کپڑے کی بہت بڑی مارکیٹ ہے ڈیفنس میں کلفٹن میں جس میں سندھ کا کپڑا ملتا ہے ٹھیک ہے سندھ کا سار ا کپڑا پاکستان میں اسمگلڈ ہے وہ بچارہ ٹیکس کہاں سے دے گا اس کی جو گڈز ہیں وہی اسمگلڈ ہیں تو شاہ زیب صاحب یہ جو مرض ہے یہ بہت شدید ہے یہ ہم اس کو بہت Lightlyلے رہے ہیں اور اگر آپ نے اس کو صحیح نہیں کیا تو یہ ملک تباہ ہوجائے گا مطلب یہ بالکل تباہی کی طرف جارہا ہے مطلب یہ آپ اس کو Realize تو کریں نا اچھا اس میں آپ مجھے بتائیں کہ کوئی مٹھائی والا کوئی ریسٹورانٹ والا کوئی گوشت والا کوئی دودھ والا ٹیکس دیتا ہے آپ نے کبھی دیکھا ہے کسی میٹھائی والے کو ٹیکس دیتے ہوئے یا کسی دودھ والے کو کسی گوشت والے کو کسی کو ٹیکس دیتے ہوئے دیکھا ہے تو یہ تو پورا ایک سسٹم ہے اچھا اب جہاں تک آپ نے سوال کیا ایگری کلچر انکم ٹیکس کا ایگری کلچر انکم ٹیکس کے دو مسائل ہیں پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ ایگری کلچر انکم ٹیکس کا ریٹ پندرہ فیصد زیادہ سے زیادہ ہے جبکہ گورنمنٹ کا ریٹ 30 ہے اور میں سندھ کا فنانس منسٹر رہ چکا ہوں کےئر ٹیکر میں اور میں آج آپ کے ہاں ریکارڈ کہہ رہا ہوں کہ سندھ میں ایگری کلچر انکم ٹیکس کا ڈپارٹمنٹ ہی نہیں ہے مطلب آپ کیا بات کررہے ہیں مطلب آپ مجھے کیا کہہ رہے ہیں کہ ایگری کلچر ریکور نہیں ہورہا بھائی پنجاب میں مجھے بتائیں کہ پنجاب گورنمنٹ میں ایگری کلچر انکم ٹیکس کا جو ڈپارٹمنٹ ہے اس میں کتنے آدمی کام کرتے ہیں مجھے یہ سمجھا دیں اس وقت وہ ڈپارٹمنٹ کس کے انڈر میں ہے اور کون اس کا انچارج ہے اس میں کتنے آدمی کام کرتے ہیں کوئی ڈپارٹمنٹ ہے بورڈ آف ریونیو والے کو دیاگیا ہے وہ کلیکٹ کرتے ہیں انہیں الف ب بھی نہیں آتی اس کی وہ جو بندہ Voluntaryدے جاتا ہے وہ دے دیتا ہے باقی کوئی پولیٹیکل گورنمنٹ ایگری کلچر انکم ٹیکس کی ریکوری میں انٹرسٹڈ ہی نہیں ہے ۔ شاہ زیب خانزادہ:…یہ جو ایک مسئلہ ہے کہ انٹرسٹڈ ہی نہیں ہے اور ظاہر ہے انٹرسٹڈ نہیں ہے اس لئے ڈپارٹمنٹ نہیں ہے ورنہ ڈپارٹمنٹ اگر کسی نہ کسی لیول پر Initiativeہوتا اس میں بڑا آسان طریقہ ہے کہ جی اگر جو چھوٹا کسان ہے اس کو آپ چھوڑ دیں مگر جو بڑے زمیندار ہیں ان کی انکم پر ٹیکس لگادیں مگر نہیں ہورہا ۔ شبر زیدی:… اچھا میں آپ کو میں اس میں ایک واقعہ سنادوں ۔ شاہ زیب خانزادہ:…واقعہ سے پہلے میں جاننا چاہ رہا ہوں کیونکہ میں نے وہ واقعہ ‘ ایک واقعہ ہوا تھا مجھے اندازہ ہے آپ کے ساتھ اس پر جانے سے پہلے میں جاننا چاہ رہا ہوں کہ ہمارے اس وقت کے فنانس منسٹر وہ اپنے لیٹر آف انٹینٹ میں آئی ایم ایف کو لکھ کے دیتے ہیں کہ ہم اقدامات کریں گے جس میں ایگری کلچر سیکٹر بھی شامل ہے پھر اسمبلی کے فلور پر آکر کھڑے ہو کے کہتے ہیں کہ کوئی اضافی ٹیکس نہیں لگایا جارہا جب اضافی نہیں لگائیں گے تو پھر کیا اقدامات کریں گے مگر آپ نے بھی اپنے دور میں کوشش کی تھی کہ ایگری کلچر ٹیکس اگر لگانا ہے ؟ شبر زیدی:…میں آپ کو بتاتا ہوں ایگری کلچر انکم ٹیکس کی پوری کہانی آپ کو سامنے آجائے گی ایگری کلچر انکم ٹیکس کا ایک قانون ہے انکم ٹیکس کا ایک قانون ہے انکم ٹیکس کا ایگری کلچر ٹیکس کا نہیں نارمل انکم ٹیکس کا قانون ہے کہ اگر آپ کسی اپنی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں کوئی کریڈٹ لیں کہ میں نے یہ اس پر یہ ٹیکس دیا ہوا ہے ایگری کلچر انکم ٹیکس تو پھر آپ کو اس کا کریڈٹ مل جاتا ہے Otherwise آپ ویلتھ میں لے نہیں سکتے وہ لاء ہے آج تک اس قانون کے تحت کسی نے کبھی نوٹس کسی بڑے زمیندار کو نہیں دیا میں نے غلطی سے ایک نوٹس دے دیا ملتا ن میں ایک بڑے زمیندار کو میرا نوٹس ایشو کیا میں نے زندگی میں ایشو کردیا ہے کہ بھئی یہ آپ جو کہہ رہے ہیں کہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ سے پیسے آئے ہیں ایگری کلچر انکم سے مجھے ری کنسائل کردو میرے دفتر میں چالیس ایم این اے آئے ریڈ بائے شاہ محمودقریشی اور اس میں پیپلزپارٹی کے ایم این اے تھے پی ایم ایل این کے بھی ایم این اے تھے اور پی ٹی آئی کے بھی ایم این اے تھے اور سارے ایم این اے تھے اور اس میں میں لمبی بات بہت لمبی ہوجائے گی اس میں ایک بہت بزرگ ایم این اے تھے سردار نصر اللہ دریشک ‘ سرردار نصر اللہ دریشک کوئی نوے سال 85 سال کے آدمی ہیں انہوں نے مجھے شارٹ میں یہ کہا کہ بیٹا تو بڑے چھوٹے عمر کا آدمی ہے تیرے بس کا کام نہیں ہے اس کو چھوڑ دے اس کو رہنے دے ۔ شاہ زیب خانزادہ :…زراعت پر ٹیکس مت لگاؤ تیرے بس کا کام نہیں ہے ؟ شبر زیدی:…نہیں نہیں یہ نوٹس جو تو نے دیا ہے نا اس میں ہاں انہوں نے بڑی انٹرسٹنگ بات کی انہوں نے کہا ہم ساؤتھ پنجاب کے ایم این اے ہیں ہمارے بغیر گورنمنٹ نہیں چل سکتی یعنی بیٹا جو ینگ ہے بچا ہے ابھی میرے سامنے میں نے بڑی گورنمنٹیں دیکھی ہیں تو اس کو چھوڑ دے تیرے بس کا کام نہیں ہے ۔ شاہ زیب خانزادہ:…اور ڈیلی گیشن کو لیڈ کیا تھا شاہ محمود قریشی صاحب نے ؟ شبر زیدی:…جی جی ۔ شاہ زیب خانزادہ:… تو آپ نے وزیراعظم سے کہا کہ نکلوائیں بھئی یہ آپ ہی کے ایم این اے ہیں آپ ہی کی پارٹی کے وائس چےئرمین ہیں یہ ان لوگوں کو لے کر آئے ہیں ؟ شبر زیدی:…نہیں نا اس میں ساری پارٹی کے تھے ایک پارٹی کے نہیں تھے ساری پارٹی کے تھے ۔ شاہ زیب خانزادہ:…تو مگر لے کر ان کی پارٹی کے فارن منسٹر وائس چےئرمین آئے تھے یہ تو ابھی نظر آرہا ہے کہ ساری پارٹیاں ہی خلاف ہیں ؟ شبر زیدی:…وہ اس لئے کررہے تھے کہ مجھے جانتے تھے نہیں ان کا نوٹس نہیں تھا مطلب انہو ں نے کہا بھئی اس قصے میں تم نہیں پڑو تمہارے بس کا کام نہیں ہے یہ ہم نہیں دیں گے یہ ری کنسائل نہیں کریں گے میں یہ آپ کو بالکل میں بالکل وہ بات بتارہا ہوں جو بالکل میرے ساتھ ہوئی ہے میں نے ان سے کہا سر یہ کیا ہے ابھی تو میں نے صرف ایک چھوٹا سا ملتان میں نوٹس لیا ہے کہ آپ ری کنسائل کردیں تو آپ چالیس آدمی آگئے ہیں انہوں نے کہا بیٹا ساؤتھ پنجاب کے ایم این اے سے لڑ کے کوئی گورنمنٹ رہ نہیں سکتی ۔ شاہ زیب خانزادہ:…اسی لئے ابھی بھی لیٹر آف انٹینٹ میں آئی ایم ایف کو لکھ کے دیا مگر کوئی ایک تو بجٹ میں نہ اقدامات نہیں کئے گئے کہا جائے کہ بجٹ میں کردےئے ہیں تو اس لئے کو ئی نیا ٹیکس نہیں لگے گا تو اسی لئے ہورہا ہے یہ سب کچھ ؟ شبر زیدی:… دیکھئے بات یہ ہے کہ آپ کی جو ویلتھ ہے جو آج یہ گاڑیاں دکھا رہے ہیں اور ٹیکس نہیں دے رہے ہے تو یہ کیا دکھاتے ہیں ایگری کلچر انکم ‘ ایگری کلچر انکم کو ری کنسائل کریں نا لاء موجود ہے اس کی نوٹس کب دیتے ہیں یہ تو یہ میں دو واقعہ بتارہا ہوں تو شاہ زیب جو لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ چھوڑ کر آگئے تو میں تو بہت بڑی لڑائی لڑرہا تھا تو میں نے پھر دیکھا کہ جب یہ بہت بڑی لڑائی میرے بس کی نہیں ہے میں نے کہا چھوڑو چلو چلتے ہیں ۔ شاہ زیب خانزادہ:…اور ایک اوربات ہے کیونکہ آپ عام طور پر کہتے ہیں کہ آپ کو بہت زیادہ تعاون حاصل تھا جنرل باجوہ کا مگر ایک چیز میں انہوں نے بھی آپ کو کہا آپ چاہتے تھے ایک اور سیکٹر کو ہیڈ آن لینا اور اس کو ٹیکس نیٹ میں پراپر لانا و ہ تھا پراپرٹی رئیل اسٹیٹ مگر اس میں انہوں نے کہا کہ یہ ذرا کیونکہ ہمارے اپنے لوگ بہت زیادہ ؟ شبر زیدی:…جی بالکل تھا ‘ میں بتاتا ہوں آپ کو دیکھئے پراپرٹی کی ویلیوایشن کے ایک ٹیبل ہے ایف بی آر نے ایشو کیا ہوا ہے و ہ ٹیبل جو ہے تقریباً مارکیٹ ویلیو سے تقریباً 50 فیصد سے بھی کم پر تھاجو ایف بی آر کی ویلیو ہے اگر دس ہے تو اس پراپرٹی کی ویلیو جو ہے وہ تقریباً بیس ہوتی ہے اس سے بھی زیادہ تھی میں نے اس کو دس کو بیس کردیا تھا جب میں نے اس کو بیس کیا تو ڈی ایچ اے کے سارے آفس خالی ہوگئے مطلب سارا دھندا بند ہوگیا تو مجھے انہوں نے بلاکے بولا کہ سر یہ بشر یہ کیا ہوا میں نے کہا کچھ بھی نہیں ہوا سرکیا ہوا کہتے ہیں سر ہمارے لوگوں کے تو کاروبار ہی یہ ہے وہ ڈی ایچ اے کے پلاٹ آگے پیچھے بیچتے رہتے ہیں میں نے کہا سر یہ میں نے یہ تم نے کیا کیا ہے میں نے کہا سر میں نے یہ کیا ہے کہ میں نے اس کو سو فیصد کردیا ہے تو کہنے لگے یار و ہ تو مجھے بار بار ڈی ایچ اے والے فون کرتے ہیں اور لوگ فون کرتے ہیں کہ شبر صاحب نے کوئی عجیب سی چیز کردی ہے میرے پاس تو دن میں ایک سودا بھی نہیں ہورہا ہمارے دن میں جو رجسٹرار کے پاس دو دو سو سودے ہوا کرتے تھے ساری دکانیں بند ہوگئی ہیں تو میں نے کہا پھر سر کیا آپ کا کیا کریں نہیں یار اس کو اس طرح کرو تھوڑا ایک دو پیچھے کردو پھر انہو ں نے مجھے کہا کہ اس کو سو کو 70 کردو پھر میں نے 70 کر کے اس کو تھوڑا اور نیچے کیا اور ان کے لوگ آکے مجھے سمجھاتے رہے کہ سر ہمارا تو دیکھیں ہمارے لوگ ڈی ایچ اے کے پلاٹوں میں خریدتے ہیں بیچتے ہیں تو اب کیا کرنا ہے ۔ شاہ زیب خانزادہ:…پوری ایک ٹریڈنگ اکانومی ہے آپ کو یہ جاکے احساس تو ہوا ہوگا کہ اس ملک کی تباہی میں سیاستدانوں کو بلیم زیادہ کیا جاتا ہے کردار سب کا ہے ؟ شبر زیدی:…میں آپ کو ایک ا ور بات بتادیتا ہوں میں اسمگلنگ میں کوئٹہ پر ہاتھ ڈالا تو میرے پاس سدرن کمانڈ کے کمانڈر آئے انہو ں نے مجھے کہا کہ آپ اس کو ذرا سلو کریں کیونکہ پولیٹیکل Disturbanceہوجاتی ہے اگر آپ اسمگلنگ کو بالکل Strictlyانفورس کرتے ہیں کیونکہ اس علاقے میں لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے دیکھو شاہ زیب Try to understand these thinksآپ سمجھے اس بات کو میں یہ ساری باتیں کیوں کررہا ہوں ۔