راولپنڈی (مانیٹرنگ ڈیسک)سویلینزکے فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلانے سے متعلق فل کورٹ بنانے کی استدعا کیس سپریم کورٹ نے پھر مسترد کر دی۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے سویلینزکے فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلانے کے خلاف فل کورٹ بنانے کی درخواست پر گزشتہ روز محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا،انہوں نے کہا کہ ملک میں کونسا قانون چلے گا اس بات کا فیصلہ عوام کریں گے،سپریم کورٹ، سویلینزکے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے کی، بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی شامل ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل منصورعثمان سے استفسار کیا کہ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا گزشتہ روز فیصل صدیقی کی درخواست سنی گئی، جہاں تک اس کیس کا تعلق ہے تمام تر یقین دہانیاں کرائی جا چکی ہیں، زیر حراست تمام افراد کو سہولیات دینے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ زیر حراست افراد کو ان کے اہلخانہ سے ملنے اور وکیل کرنے کی اجازت ہے، زیرحراست افراد کو فیئر ٹرائل کا حق دیا جا رہا ہےمنصور عثمان نے عدالت کو بتایا کہ ’پک اینڈ چوز‘ نہیں کیا، بہت احتیاط برتی گئی، جو لوگ براہ راست ملوث تھے انہیں ہی ملٹری کورٹس بھیجا گیا، کور کمانڈر ہاؤس میں جو لوگ داخل ہوئے انہیں ملٹری کورٹس بھیجا گیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی فورم پر مواد ہوگا تو پتا چلے گا کہ آپ کا دعویٰ درست ہے یا نہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات میں کسی کا جرم عمر قید یا سزائے موت کی نوعیت کا نہیں ہے، کل لطیف کھوسہ نے کہا ایک شخص کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے اپنے سامنے پیش ہونے سے منع کیا، کھوسہ صاحب نے کہا کہ گرفتارملزمان کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ رکھا گیا۔