اسلام آباد (نیوز ایجنسیز / نمائندہ جنگ) وزیراعظم شہباز شریف نے 9؍ اگست بروز بدھ کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی تاریخ دیدی ۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے اتحادی ارکان پارلیمنٹ کو دیئے گئے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری 9؍ اگست کو صدر کو بھیج دیں گے۔
نگراں وزیر اعظم کے نام کیلئے آج (جمعہ) سے مشاورت ہوگی اور آئندہ 2 سے 3 روز میں مشاورت مکمل کر لیں گے، اب ہمیں اس معیشت کو ٹھیک کرنے کیلئے انقلابی سرجیکل آپریشن کرنے ہوں گے۔
قبل ازیں بھارہ کہو بائی پاس منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سیاستدان اور ادارے مل کر کام کریں، اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہونے کے طعنوں سےفرق نہیں پڑتا، آرمی چیف نے ملکی ترقی کیلئے بڑی کمٹمنٹ دکھائی، کئی راز قبر میں لیکر جائوں گا۔
انہوں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں مشرف کے بڑے قریب تھا، تو اس نے مجھے کونسے لڈو پیڑے کھلائے، مشکلات بہت ہیں اور آگے بھی آئیں گی، نوازشریف حکومت کو سازش سے ہٹایا گیا، جب ہماری حکومت گئی تو ہر منصوبہ رک چکا تھا
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حالیہ سیلاب سے انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا، بھارہ کہو منصوبے سے عوام کو بہت سہولت ہوگی، راستہ دینا عین عبادت ہے، یہ منصوبہ نوازشریف کا ویژن تھا، بھارہ کہو منصوبہ 9 ماہ کی قلیل مدت میں تمام تر مشکلات کے باوجود مکمل ہوا۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کی رات اتحادی ارکان پارلیمنٹ کے اعزاز میں الوداعی عشائیہ دیا، جیو نیوز کے مطابق عشائیے میں ملکی سیاسی صورتحال اور آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔
جیو نیوز کے مطابق ذرائع کا بتانا ہے کہ اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادیوں کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے 9؍ اگست کی تاریخ دے دی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کا اتحادی رہنماؤں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا قومی اسمبلی توڑنےکی سمری 9؍ اگست کو صدر کو بھیج دیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے وزیر اعظم کا کہنا تھا نگراں وزیر اعظم کے نام کے لیے آج سے مشاورت ہوگی اور آئندہ 2 سے 3 روز میں مشاورت مکمل کر لیں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ حکومت کو گزشتہ ایک برس کے دوران انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اتحادیوں نے ہمت نہیں ہاری اور ہمیں اپنی معیشت ٹھیک کرنے کیلئے انقلابی سرجیکل آپریشن کرنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو ناقابل بیان ہیں، ہمیں اندازہ تھا کہ صورت حال خاصی خراب ہوچکی ہے، ہمیں علم تھا کہ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاملہ بہت دور تلک چلا گیا اور بالکل ٹوٹنے والا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا بڑا چیلنج تھا اور اس نے میری نیندیں حرام کردی تھیں، اسحٰق ڈار اس پر بڑے مطمئن تھے اور مجھے کہہ رہے تھے آئی ایم ایف کا پروگرام نہ بھی ہوا تو ہم ڈیفالٹ نہیں کریں گے لیکن ڈیفالٹ نہ بھی ہوتا اس کے باوجود ہماری معیشت کی حالت غیر ہوجانی تھی، ڈالر کہیں ہوتا اور روپیہ کہیں ہوتا، درآمدات پر مزید دباؤ آنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پیرس میں ایک موقع ملا اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے ملاقات ہوئی تو شروع میں سرد مہری رہی اور تقریباً جواب دے دیا کہ وقت گزر گیا ہے، 30 جون کےبعد کوئی پروگرام نہیں تھا بہرحال میں نے اور میرے ساتھیوں نے جو ہوسکتا ہے کوشش کی۔
آئی ایم ایف کی سربراہ سے ملاقات کے احوال بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ ان کی خوشامد کی، ان کو بطور عالمی بینک کی نائب صدر جانتا تھا اور ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات کے بعد طے ہوا کہ ٹیمیں بیٹھیں گی تو اسحٰق ڈار نے تحفظات کا اظہار کیا لیکن میں نے کہا کہ بیٹھیں گے، یہ بعد میں پھر بدل جائیں گے اور اجتماعی کوششوں سے آئی ایم ایف کا معاہدہ ہوا۔
وزیراعظم نے بتایا کہ تمام زعما کے سر پر اللہ نے ہما بٹھائی کہ آپ کے دور میں وہ خطرہ ٹل گیا جو عمران خان کے دورہ میں ڈیفالٹ کا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اور اس کی حکومت نے خارجہ معاملات میں وہ تباہی کی جو بیان نہیں کرسکتا، دوست اور برادر ممالک کے زعما نے خود بتایا کہ ہمارے ساتھ یہ ہوا اور ہمارے ساتھ یہ باتیں کی گئیں، یہ باتیں اب راز نہیں کہ وہ کون تھا جس نے دوست ملک کو کہا کہ آپ کے بغیر کشمیر کا معاملہ حل کریں گے اور دوسرے ملک سے کہا کہ آپ کی مدد کی ضرورت نہیں اور چین پر الزام تراشی کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیرخارجہ بلاول بھٹو اور ہم سب نے ان کو کیسے راضی کیا وہ خدا جانتا ہے، اب چین کے زعما آئے اور وہی گرم جوشی محسوس ہوئی جو پہلے ہوا کرتی تھی لیکن پچھلے 4 برسوں میں تعلقات سرد خانے میں چلے گئے تھے اور سرد مہری کا شکار تھے اور تاریخ میں تعلقات میں اتنی سرد مہری نہ آئی ہو۔
وزیراعظم نے کہا کہ جس ملک نے آپ کے ملک میں 25 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہو، اس کے بعد ان کو جو پیسے واپس جانے تھے، اس میں بے پناہ تاخیر ہو اور ان کے بارے میں وزیراعظم ہاؤس کے اندر اور باہر جو الزام تراشیاں ہوتی تھیں وہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔
انہوں نے کہا کہ جس ملک نے جنگوں میں، امن، اقوام متحدہ میں اور حساس معاملات میں پاکستان کا ساتھ دیا ہو، اس چین پر دن رات الزام کے نشتر چلا رہے ہوں تو اس سے بڑا ظلم یا زیادتی پاکستان کے ساتھ نہیں ہوسکتی اور اس کی مثال 75 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ نے 4 ارب کا بڑی محنت سے انتظام کیا اور 2 ارب ڈالر سعودی عرب، ایک ارب ڈالر متحدہ عرب امارات اور ایک ارب ڈالر اسلامک ترقیاتی بینک نے دیا، تب جاکر پاکستان ڈیفالٹ سے بچا ہے۔
قبل ازیں بھارہ کہو بائی پاس منصوبہ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پورے ملک میں گلیات، مری اور آزاد کشمیر کیلئے ٹریفک بھارہ کہو روڈ سے گزرتی ہے جو گھنٹوں بلاک رہتی تھی عوام کیلئے ٹریفک کا مسئلہ وبال جان بن چکا تھا ، تمام تر مشکلات کے باوجود منصوبہ 9 ماہ میں مکمل ہوا ہے پورے پاکستان کیلئے ٹریفک میں آسانی ہوگی اور پیسہ و وقت بچے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے ماحولیات کی صورتحال بھی بہتر ہوگی یہ منصوبہ نواز شریف کا ویژن تھا، جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہم سب پر کڑا وقت آیا ملک کا ہم سب نے خیال کرنا ہے مشکل حالات کا مقابلہ کرنیوالے ہی انکو سمجھتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ انتہائی قابل بچوں کے پاس وسائل نہیں جبکہ وہ ہم سے زیادہ ذہین اور محنتی ہیں 75 سال سے وسائل کی بندر بانٹ سب کے سامنے ہے حویلی بہادر شاہ منصوبہ پر 70 ارب روپے کی لاگت کا تخمینہ تھا میں نے ٹھیکہ دیدیا، 2018 سے قبل پہلی ٹربائین آ گئی 2019میں مکمل ہونا تھا پھر چار سال منصوبہ بند کر دیا گیا جس سے لاگت دو گنا ہو گئی۔
شہباز شریف نے کہا کہ 70 ارب روپے لاکھوں بچوں، بچیوں کی تعلیم صحت اور روزگار کیلئے استعمال ہو سکتے تھے، اعلیٰ یونیورسٹیاں، ہسپتال اور 4،5 پی کے ایل آئی اور بن جاتے یہ ایک مثال ہے کہ کس طرح ملک کو تباہ کیا گیا۔