جشن آزادی ہو ،ہیپی نیوائیر یا دیگر خوشی کا کوئی موقع میسر آئے، ہزار پابندیوں کے باوجود ہوائی فائرنگ اور منچلوں کی ہلڑبازی کرنا لگتا ہے، یہ سب خوشیوں کی روایت بنتی جارہی ہیں چاہے کسی کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے خوشیوں کو مواقعوں پر جشن ضرور منائیں، لیکن قیمتی انسانی جانوں کا خیال رکھنابھی اشد ضروری ہے۔ اس سال بھی یوم آزادی کے موقع پرزور و شور سے جشن منا یا گیا ، 13اگست کی شب 12بجتے ہی منچلوں کی ٹولیاں سڑکوں پر نکل آئیں، مختلف مقامات پر بڑی تعداد میں شہری بھی گھروں سے نکل آئے، تفریحی مقامات پر خواتین اور بچوں کی تعداد بھی خاصی دیکھنے میں آئی۔
منچلے موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر ہلڑ بازی اور ون ویلنگ کرتے رہے۔ بہت سے لوگ رقص اور دھمال ڈالتے نظر آئے۔ شہر دھماکوں اور گولیوں کی تھر تھراہٹ سے گونج اٹھا، مختلف علاقوں میں ہونے والی ہوائی فائرنگ کے واقعات نے پھرخوشی کےاس دن کو غم میں بدل دیا۔ اسپتالوں سے ملنے والے ریکارڈ کے مطابق ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں خاتون اور لڑکی سمیت 3 افراد جاں بحق ، جبکہ 2ماہ کےکمسن بچے سمیت 80 سے زائد معصوم افراد گولیوں کا نشانہ بنے ۔اورنگی ٹاون میں واقع گھر میں موجود خاتون نامعلوم سمت سے آنے والی گولی لگنےسے جاں بحق ہو گئی۔ اسی طرح شاہ لطیف ٹاؤن کی رہائشی اورجامعہ سندھ مدرستہ ا لاسلام کی طالبہ 24 سا لہ بسمہ مزار قائد کے قریب پیپلز چورنگی سے گزر رہی تھی کہ اچانک ہوائی فائرنگ کا نشانہ بن گئی۔
لیاری میں نامعلوم سمت سے لگنے والی گولی سے عبد الوہاب نامی شخص جاں بحق ہوگیا، جبکہ نیو کراچی صنعتی ایریا کے گھر کے اندر انجانی سمت سے آنے والی گولی سےدوماہ کا کمسن بچہ زخمی ہو گیا، ہوائی فائرنگ کی وڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ گلستان جوہر میں چائے کے ہوٹل کے قریب نوجوان کو فائرنگ کرتے دیکھا جا سکتا ہے، نوجوان کی فائرنگ سے یہاں موجود افراد خوفزدہ ہو گئے ،گذری نیو پی این ٹی کالونی میں ہوائی فائرنگ کرنے والے افرد کی ویڈیو منظر عام پر آگئی، جس میں بااثر افراد کو جدید اسلحہ سے سرے عام فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے ،ویڈیو میں3 سے زائد افراد کوبلا خوف وقفے وقفے سے فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا گیا ،ہوائی فائرنگ کے دوران بچے بھی موجود تھے ۔ ہوائی فائرنگ کی زد میں آکر خواتین اور بچوں سمیت مجموعی طور پر 80 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ہوائی فائرنگ سے زخمی ہونے والے 29 افراد جناح اسپتال ، 24 زخمی سول اسپتال جبکہ 9 زخمی عباسی شہید اسپتا ل منتقل کیے گئے۔
14اگست کو ہی ایک دل سوز حاد ثہ رونماہوا جب میمن گوٹھ کے علاقے جاموٹ پاڑہ میں 5 سالہ معصوم بچہ نعمان ابڑو یومِ آزادی کی ریلی کےساتھ چلتے ہوئے کھلے ہوئے مین ہول میں گر کر والدین سے جدا ہوگیا،جس کی وائرل ہو نے والی ویڈیو نے ہر شخص کوغمزدہ کردیا، علاقہ مکینوں نے کافی جدوجہد کے بعدبچے کو گٹر سے نکالا لیکن و ہ جاں بحق ہوچکا تھا۔ خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑی ، اس کے والد کا کہنا تھا کہ میرا ایک ہی بچہ تھا،کس کے پاس جائیں ؟ کوئی سننے والا نہیں ہے۔ علاقہ مکنیوں کا کہنا ہے کہ حادثے کا سبب بننے والا مین ہول 15 ، 20 دن سے کھلا ہوا ہے، شکایت کے لیے کئی بار یونین کونسل بھی گئے لیکن کچھ نہیں ہوا۔
بے راہ روی کےشکار اس معاشرے میں قانون کی حکمرانی نام کی کوئی چیز نہیں، جنگل کے قانون میں مجرمانہ ذہنیت کے مالک طاقتور اور بااثرقانون شکن اشخاص ذرا سی بات پراپنی عدالت لگا کر انسانی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے ، انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایک ایساہی دل دہلا دینے والا واقعہ گزشتہ دنوں سرسید تھانے کی حدود ناگن چورنگی کے قریب واقع رینٹ اےکار کے آفس میں رقم کے تنازع پر رونما ہوا، جس میں ظالموں نے شوروم کے نوجوان ملازم 26 سالہ عدیل ولد تنویر کے ہاتھ پاؤں باندھے پھر اسے الٹا کر کے بیلٹوں اور ڈنڈوں سے بہیمانہ تشدد کیا، ملزما ن تشدد کے دوران اس کی ویڈیو بھی بناتے رہے، ان کے ایک ساتھی نے ویڈیو کو سوشل میڈیا پر وائرل بھی کردیا۔
ملزمان مقتول پر بہیمانہ تشدد کر نےکے بعد اسے دفتر میں ہی بند کر کے چلے گئے جہاں وہ جان کی بازی ہار گیا ،شدت پسندی کی حالیہ لہر سے شہریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ، دل دہلانے دینے والے واقعات پر شہری حلقوں نے شدیدغم و غصے کاظہار بھی کیا۔ پولیس نے 4 ملزمان کو گرفتار کرلیا، واردات کی ویڈیو وائرل ہو نے کے بعد پولیس حرکت میں آئی اورخفیہ اطلاع پر بسم اللہ ہوٹل میں بیٹھے ہوئے2 ملزمان علی اورمحمد عمار کو گرفتار کر کےا ن کی نشاند ہی پر احسان اور سفیر سمیت 5 ملزمان کو بھی گرفتار کر لیا اور ان ہی کی نشاندہی پر پولیس نے رینٹ اے کار کے دفتر پہنچ کر تالے توڑےتو عدیل کی لاش زمین پر پڑی ہوئی تھی۔
ملزمان نے تفتیش کے دوران پولیس کو بتایا کہ مقتول عدیل سے 15سے16 لاکھ روپے لینے تھے ،جوکافی عرصے سے نہیں دے رہا تھا۔8 اگست کو مقتول عدیل ہمارے ہاتھ لگ گیا ،جسے ہم شوروم پر لے آئے، جہاں اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور ویڈیو بھی بنائی بعد ازاںاسے شوروم میں بند کر کے چلے گئے۔متوفی کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی پائے گئے۔ مقتول کی ہمشیرہ میمونہ کی مدعیت میں اغوا کے بعد قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا،4 نامزد ملزمان سمیت 8 افراد کے نام مقدمے میں شامل کیے گئے ہیں ، جنھیں ملزمان کی نشا ندہی پر نامز د کیا گیا ہے ۔ایس ایچ او سر سید شاہد تاج نے نمائندہ جنگ سے گفتگوکرتے ہوئےبتایا کہ جب ہمیں وڈیو کے ذریعے علم ہوا تو لاش دفتر سے نکا لی، تشدد اور قتل میں ملوث ملزمان کو گرفتار کر لیا۔
مقتول اور تشدد میں ملوث ملزما ن کے مابین رقم کے لین دین کا تنازع ہے اور رینٹ اے کار کے مالک ہی نوجوان کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہیں، انھوں نے مزید کہا کہ ملزم حمادترازواوربانٹ کا کاروبار کرتا ہے،جس نےمقتول کےپاس اپنا قیمتی سامان اور ترازوبانٹ رکھوایا تھا، جسے مقتول نے مختلف اوقات میں کباڑیے کو فروخت کردیا اور غائب ہو گیا، جس کی ملزمان تلاش میں تھے، لیکن قانون کوہاتھ میں لے کر بہیمانہ تشدد کرکےکسی انسان کی جان لینانا قابل معافی جرم ہے، مقتول غیر شادی شدہ تھا۔ والد کا انتقال ہوچکا ہے، مقتول کی 3شادی شدہ بہنیں اور بیوہ ماں ہے۔ پولیس نے خفیہ اطلاع پر 15اگست کو ایک اور ملزم بلال صدیقی کو بھی گرفتار کرلیا۔ ملزمان کو مزید تفتیش کےلئے انوسٹی گیشن پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے، پولیس کے مطابق گرفتارہو نےوالےعلی نواز اور محمد عمار مرکزی ملزمان اور شوروم کےمالک ہیں۔ مقدمے میں نامزد ملزم حسان کو بھی حراست میں لے لیا ، جبکہ کئی ملزمان مفرور ہیں جن کی گرفتاری کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔
شہر میں ڈاکووں اور لٹیروں کاراج بدستور جاری ہے۔ اسٹریٹ کرمنلز نے شہریوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ لیاقت آباد تھانے کی حدود میں دن دیہاڑے موٹرسائیکل سوار مسلح ملزمان اسلحے کے زورپر شہری سے نقد رقم اور قیمتی موبائل فون لوٹ کر فرار ہوگئے۔ ڈکیتی کی واردات کی ویڈیو قریبی عمارت کے رہائشی نے بالکنی سےبنائی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لٹیروں نے بلا خوف و خطر شہری کو واردات نشانہ بنایا۔ لیاقت آباد پل ڈاکووں کا آسان ہدف بن گیاہے ،جہاں آئے روز صحافیوں سمیت متعد د شہری لٹ چکے ہیں لیکن پولیس تاحال کسی ایک ملزمان کو بھی پکڑنے میں نا کام ہے۔
اب توبے لگام اسٹریٹ کرمنلز نے عام شہری تو کجا پولیس افسران اور ان کے اہلخانہ کو بھی لوٹنا شروع کردیاہے۔ مسلح موٹر سائیکل سوار ڈاکووں نے الہ دین پارک کے قریب ڈی ایس پی امجد کلیارکو فیملی سمیت لوٹ لیا، امجد کلیار کے ہمراہ ان کی بیٹی اور داماد موجود تھے، ملزما ن ان کی فیملی سے موبائل فون اور پرس چھین کر کے فرار ہوگئے ۔ یہ بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ شہر میں ہو نے والی دہشت گردی ، چوری اور ڈکیتیوں میں شہر کے مضافاتی علاقوں میں مقیم غیر ملکیوں کی بڑی تعداد ملوث ہے ،جس کی بیخ کنی کے لیے سی ٹی ڈی پولیس کوشش کر رہی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق سی ٹی ڈی پولیس نےسندھ کی مقامی پولیس کے ساتھ مل کر انفارمیشن بیسڈ آپریشن 17 جولائی تا 13 اگست تک کراچی ، حیدر آباد ، میر پور خاص ، شہید بینظیر آباد ، نواب شاہ ،سکھر اور لاڑکانہ کے اطراف میں کیے گئے۔
اس دوران تلاش ایپ کے ذریعے 10455 مشتبہ افراد کو چیک کیااور 124 مشتبہ افراد جن میں 34 غیرقانونی طور پر مقیم افغا نی باشندے شامل ہیں ان کو حراست میں لے کر متعلقہ تھانوں کے حوالے کیا گیا، آپریشن کے دوران 24 افراد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف سی ٹی ڈی تھا نے میں مقدمات بھی درج کئے گئے، گرفتا ر ملزمان سے 15 غیر قانونی پستول ، ایک رائفل اور 2 کاریں بھی برآمد کی گئیں ۔یہ مشترکہ انفارمیشن بیسڈ آپریشن میں سی ٹی ڈی اور سندھ کی ڈسٹرکٹ پولیس کے ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز کی نگرانی میں انجام دیاگیا ۔ موجودہ حالات کے پیش نظر سی ٹی ڈی پولیس کا یہ آپریشن اسی شد ومد کے ساتھ جاری رہنا ناگزیر ہے۔