• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سے 76سال قبل دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے والا مُلک، پاکستان ہماری پہچان اور شناخت ہے۔ سچّی بات ہے کہ آزادی ایک ایسی نعمت ہے، جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ ایک آزاد خطّۂ زمین، جہاں ہم سر اُٹھا کر چلتے ہیں، جہاں ہم ایک آزاد شہری کی حیثیت سے رہتے ہیں، یہ اللہ پاک کا ہم پر بہت بڑااحسان ہے۔ پاکستان دنیا کا وہ مُلک ہے، جو ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا ۔ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الاللہ ‘‘کے نعرے نے برِصغیر کے مسلمانوں کو نشانِ منزل عطا کیا۔ ہزاروں مَردوں، عورتوں اور بچّوںکی قربانیوں اور کوششوں نے اس سرزمین کا حصول ممکن بنایا اور لاکھوں مسلمانوں کے لیے اپنے عقیدے، دین کے مطابق زندگی گزارنے کا خواب تعبیر کو پہنچا۔

پاکستان بلاشبہ ایک نعمتِ خداوندی، قلعہ، سائبان ہے، جسے اللہ نے ہر نعمت سے نوازا، معدنی وسائل اور افرادی قوت سے مالامال کیا ہےاوراس نعمت کا شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اس اَن مول سرزمین کی قدر کریں۔بے وطنی ایک دُکھ کی طرح ہجرتوں کے مسافروں کا مقدّر بن جاتی ہے، پھر ذرا سوچیں کہ اپنے گھر کے سوا کہاں، کس جگہ پُرسکون نیند آتی ہے، تو یہ مُلک بھی تو ہمارا گھر ہی ہے، جس کی حفاظت ہر پاکستانی کا فرض اور اس نعمت کی قدر ہماری اوّلین ذمّے داری ہے۔ اور، جانتے ہیں، یہ قرض صرف اسی صُورت اُتر سکتا ہے،جب ہم تنقید براے تنقید نہیں، اپنا اپنا کام امانت سمجھ کر اور ذمّے داری فرض سمجھ کر نبھائیں۔ 

مشاہدے میں ہے کہ کچھ لوگ اور حلقوں کا کام ہی ہر جگہ پاکستان کے حوالے سے منفی باتیں کرنا اور برائیاں، خامیاں اُجاگر کرناہے۔ مانا کہ ہمارا اوطن اس وقت ایک مشکل دَور سے گزر رہا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ بس ہر وقت اس کی کمیاں، خامیاں ہی گنوائی جاتی رہیں۔ مغرب سے مرعوب افراد کو یادرہنا چاہیے کہ ہم اُس مُلک کے باسی ہیں، جہاں چاروں موسم، سمندر، دریا، پہاڑ، ریگستان، میدان، سرسبز باغات، نمک، کوئلے کی کانیں، زرخیز زمینیں سب ہی کچھ میسّر ہے۔ 

اس مُلک کو اللہ تعالیٰ نے ہر اُس نعمت سے نوازا ہے، جس کے لیے اہلِ مغرب ترستے ہیں۔ البتہ، ایک معاملے میں وہ ہماری نسبت خوش قسمت ہیں اور وہ وہاں کے مخلص عوام وحکم ران ہیں، جن کی زندگی کا مقصد لُوٹ کھسوٹ، بد عنوانی، لاقانونیت، کرپشن نہیں، مُلک و قوم کو ترقّی کی راہ پر گام زن کرنا ہے۔ ویسے اگر شُکر کی نظر سے دیکھیں، تو ہمیں وطنِ عزیز میں بھی ترقّی کے آثار دکھائی دیں گے۔اَن گنت بلند وبالا عمارات،بڑے بڑےاسکولز، کالجز، جامعات، جدید اسپتال اور پھرہماری نسلِ نو اِسی مُلک کا سرمایۂ افتخار ہیں۔

پاکستانیوں کی اِس حوالے سے پوری دنیا میں شہرت ہے کہ یہ انتہائی محنتی قوم ہے اوراِس بات میں قطعاً کوئی دو رائے بھی نہیں کہ طِب کا شعبہ ہو، آئی ٹی یا تعمیرات کا، پاکستانیوں نے دنیا میں اپنی ایک پہچان بنائی ہے۔ پاکستانی ڈاکٹرز، انجینئرز ، ہنر مندوںکی پوری دنیا میں مانگ ہے، لیکن بد قسمتی سے انہیں اپنے مُلک میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور نہ ہی محنت کا خاطر خواہ صلہ ملتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے متعددقابلِ فخر، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان بیرونِ مُلک جانے پر مجبور ہیں۔ 

حالاں کہ اپنا مُلک،گھربار اور سب سے بڑھ کر ماں، باپ، اہلِ خانہ کو چھوڑ کر جانا، ایک اَن جانے دیس، بےگانے لوگوں کے درمیان رہنا ہرگز آسان نہیں ۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’جس تن لاگے، وہ تن جانے‘‘ تو دیارِ غیر جانے والے پاکستانیوں کی تکلیف اور مشکلات بھی صرف وہی سمجھ سکتے ہیں۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ جوانی کہیں بھی، کسی بھی مُلک میں گزار لیں، مگر آخری عُمر میں سکون صرف اپنے مُلک ہی میں ملتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے دن بَھرا کا تھکا مانداشخص جلد از جلد اپنے گھر پہنچنا چاہتا ہے، ویسے ہی دیارِ غیر میں ساری زندگی گزارنے، محنت مزدوری کرنے کے بعد ادھیڑ عُمر میںاپنے وطن کی یاد شدّت سے آتی ہے۔ 

باہر کی چکا چوند اور معاشی ترقّی اپنی جگہ، لوٹ کر آنے کے لیے تو گھر ہی چاہیے، جہاں ہماری جڑیں ہیں، جہاں ہم نے خواب دیکھنا سیکھا، جہاں ہمارا دل دھڑکتا ہے۔ یوں بھی مسافر کو گھر لَوٹنے کی تمنّا ہی توزندہ رکھتی ہے۔اس لیے اپنے پیارے مُلک سے وفادار رہیں، اپنے کام(ملازمت و تعلیم) سے مخلص رہیں۔ جس عُہدے پر فائز ہیں، جو ذمّے داریاں ملی ہیں، اُنہیں ایمان داری سے نبھائیں کہ خیانت اور بدعنوانی پاکستان کی جَڑیں کھوکھلی کر رہی ہےاور اب ہمارے مخلص نوجوان اور دیانت اہلِ اقتدارہی مُلک کے سُدھار میں کچھ پیش رفت لا سکتے ہیں۔ لہٰذا خدارا! پاکستان سے متعلق منفی اور حوصلہ شکنی والی باتیں نہ پھیلائیں۔ اپنی پوری طاقت اور صلاحیت سے جتنا ممکن ہو، اس مُلکِ خداداد کی خدمت کریں ۔یہ ہمارے، آپ کے پُرکھوں کے خوابوں کی تعبیر ہے، جسے ہم نے اَن تھک محنت اور ایمان داری سے مزید خُوب صورت بنانا ہے۔