فاطمہ حسین
نو سالہ پپو اپنے گھر میں سب سے چھوٹا اور لاڈلا تھا۔ اس کے باوجود وہ فرما بردار اور محبت کرنے والا بچہ تھا۔وہ ہر سال جشنِ آزادی بڑے جوش و خروش سے مناتا تھا۔
سجاوٹ کے لیے پیسے جمع کرتا ،گھر کا ہر فرد اسے الگ سے بھی پیسے دیتے، جس سے وہ اپنی امی کے ساتھ جا کے یومِ آزادی کے حوالے سے ڈھیر ساری خریداری کرتااور پھر گھر کو سجاتا۔ گھر میں تقریب رکھی جاتی سب بچوں کوبلوایا جاتا۔ اس تقریب میں بچوں کے لیے مختلف کھیل، تقریری مقابلے، ملی نغمے وغیرہ ہوتے۔ پھر دادا ،دادی آزادی کی قیامِ پاکستان کے بارے میں بتاتےاور بچوں کو اپنے ملک کا نام روشن کرنے کا درس دیتے۔غرض تقریب میں نہ صرف کھیل کود ہوتا بلکہ بہت سی معلوماتی چیزیں بھی ہوتیں جن سے بچے بے حد لطف اندوز ہوتے۔
14اگست میں صرف دو دن رہ گئے تھے ، وہ اسکول جانے سے پہلے ہی امی سے کہہ کر گیا تھا کہ آج ان کے ساتھ خریداری کے لئے جائے گا۔ پپو اسکول سے آتے ہی سب کو سلام کرتے ہوئے کچن میں پہنچا ،جہاں اس کی امی کھانا بنا رہی تھیں۔
"السلام علیکم، امی ،کیا آپ ابھی تک فارغ نہیں ہوئیں؟"
"وعلیکم السلام، بیٹا فارغ ہی ہوں ۔ بس سب کو کھانا دے دوں جاؤ آپ بھی جلدی سے منہ ہاتھ دھوکےآجاؤ۔ کھانا کھاکر ان شاء اللہ چلیں گے"
"جی امی بس ابھی آیا"۔پپو نے کہا اور جلدی سے منہ دھونے چلا گیا۔’’آج کا دن کیسا رہا؟‘‘ دادا نے پپو سے پوچھا
"بہت اچھا دادا ابو!آج کل سب 14اگست منا نے کی تیاری میں مصروف ہیں۔میں بھی آج بازار جا ؤں گا"۔اسکے چہرے پر خوشی تھی۔
کھانا کھاتے ہی پپو نے بے صبری سے کہا ، جلدی چلیں امی ‘‘۔
"جی بیٹا! آپ جاکر گاڑی میں بیٹھیں۔ میں آتی ہوں۔‘‘گاڑی بازار میں داخل ہوئی توپپوپرجوش انداز میں بولا۔"امی سب سے پہلے اس دکان میں چلیں گے یہاں جھنڈے بہت اچھے ملتے ہیں"۔
’’اچھاجی! ‘‘ امی نے کہا۔
پپوجیسے ہی جھنڈا لے کر دکان سے نکلا اس کی نظر دکا ن کے چبوترے پر بیٹھے اک بچے پر پڑی جو مسلسل رو رہا تھا اور اپنی امی سےکوئی ضد کر رہا تھا۔ ابھی وہ بچے کے پا س جانے ہی والا تھاکہ امی اس کا ہاتھ پکڑ کر دوسری دکا ن میں داخل ہوگئیں۔ پپو کاسارا دھیان اس رونے والےبچے کی طرف تھا ۔
’’بیٹا! یہ شرٹ دیکھیے۔کیسی ہے؟ ‘‘ امی جان کہہ رہی تھیں۔ پپو بس گردن ہلا کے رہ گیا۔ وہ اسی بچےکے بارے میں سوچ رہا تھا۔ جب وہ دکا ن سے باہر نکلا اسے، پھر وہی بچہ روتا ہوا نظر آیا۔وہ اس بچے کے پاس پہنچ گیا۔اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا۔ ’’دوست السلام علیکم! آپ رو کیو ں رہے ہیں؟‘‘
’’مجھے بھی 14 اگست کے لیے ،چیزیں خریدنی ہیں لیکن ہم کچھ بھی نہیں لے سکتے۔ سب چیزیں اتنی مہنگی ہیں۔ میرے ابو مجھے چودہ اگست پر اتنا کچھ دلاتے تھے۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ پھر سے رونے لگا۔پپونے بچے سے کہا۔ ’’ آپ کو دوست کہوں، کوئی اعتراض تو نہیں ؟‘‘
’’نہیں! بچے نےجلدی سے آنسو صاف کیے اور فورا ً ہاتھ آگے کر دیا۔ میرا نام معاذ ہے، میرے ابو جب بھی 14اگست پر میرے لیے جھنڈیاں لاتے ،پھر ہم پورا گھر سجاتے تھے۔‘‘
پپو نے پیار سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’’آپ اس سال بھی جشن آزادی ضرور مناؤ گے۔‘‘
آؤ معاذ، گھر چلیں، اس کی امی نےاس کا ہاتھ پکڑا زاور آگے بڑھ گئیں۔
ادھر پپو کی امی اسےادھر ادھر ڈھونڈرہیں تھیںاچانک انہیں فٹ پاتھ پر کھڑا نظر آگیا جو معاذ سے ہاتھ ملا رہا تھا۔ امی نے اسے ڈانٹا کہ ہر کسی سے دوستی نہیں کرتےاور غصے سے اس کا ہاتھ پکڑا اور گاڑی میں بیٹھا دیا۔
گھر پہنچتے ہی پپوسیدھا دادا ابو کے کمرے میں گیا اور ان سے لپٹ کر رونے لگا۔ دادا ابو پریشان ہو گئے، پھر اس نےانہیں پوری کہانی سنائی ۔دادا ابو بھی غمگین ہو گئے، پھر وہ پپو کوسمجھانے لگے۔’’بیٹا! آپ کی امی غلط نہیں ہیں۔ زمانہ خراب ہےکسی پہ بھروسہ نہیں کرسکتے۔‘‘ انہوں نے اس سے معاذ کی مدد کرنے کا وعدہ کرلیا۔
شام کو امی جان نےپپوکے ابو کو ساری بات بتائی۔ وہ کہنے لگے۔ ’’ مانا کہ زمانہ خراب ہے،مگر ہر بندہ تو برا نہیں ہوسکتا۔ ہمیں ان کی ضرور مدد کرنی چاہیے۔ اگلے دن اسکول سے واپسی پر پپو اپنےابو امی کو اسی جگہ لے گیا، جہاں معاذ اوراس کی امی ملے تھے، مگر انہیں مایوسی ہوئی۔ انہوں نے نے آس پاس سب جگہ دیکھا۔بڑی جدوجہدکے بعد ان کا پتہ مل گیا۔ ان کا گھر شہر سے دور اک پسماندہ علاقے میں تھا۔ ودروازے پر دست دینے پر معاذ نے دروازہ کھولا اور پپو کو دیکھ کر حیرا ن رہ گیا۔ وہ گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا اس کی امی بری طرح بخار میں تپ رہی تھیں۔ معاذ مسلسل پانی کی پٹیاں ان کی پیشانی پر رکھ رہا تھا۔
پپوکی امی نےنے محبت سے ان کا ہاتھ تھام لیا۔ ’’ بہن! میں اپنے کل کے رویے پر بے حد شرمندہ ہوں ۔‘‘
۔ ’’نہیں نہیں کوئی بات نہیں۔‘‘ معاذ کی امی بولیں۔
پپو کے ابو نے معاذ کی تعلیم دوبارہ شروع کروانے کا یقین دلایا۔ اوردونوں بچوں سے کہا کہ ’’ کہ ہم سب مل کر چودہ اگست کا دن منائیں گے۔ان شاءاللہ! پھر جشن آزادی والے دن، معاذاور پپونے چھت پرسبز جھنڈا لہرایا تو ہر ایک کا چہرہ خوشی سےکھل اٹھا۔