بھارت میں کھیلے جانے والے ایشین چیمپئینز ٹرافی ہاکی ٹور نامنٹ میں پاکستانی ٹیم کی کار کردگی توقعات کے مطابق نہیں رہی ہے، قوم اور ہاکی کے حلقوں کو جیت کی امید تو نہیں تھی مگر اس بات کی آ س ضرور تھی کہ قومی ٹیم اپنے سفر کا اختتام وکٹری اسٹینڈ پر کرے گی، مگر ایسا نہ ہوسکا، چھ ٹیموں کے اس ایونٹ کی تیاری کے لئے حکومت نے پاکستان ہاکی فیڈریشن کو بھاری رقم بھی فراہم کی تھی، قومی ٹیم کو لیگ کے میچوں میں صرف ایک کامیابی چین کے خلاف ملی، ملائیشیا اور روایتی حریف بھارت کے خلاف اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، بھارت کے خلاف قومی ٹیم کو آوٹ کلاس انداز میں شکست ہوئی، بھارت نے ہمارے قومی کھلاڑیوں کو تگنی کا ناچ نچا دیا، چار گول کی ناکامی نے ہماری کم زوریوں اور خامیوں کا پول کھول دیا، جس سےثابت ہورہا ہے کہ ہاکی کے میدان میں جیت کے لئے ہمیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔
ڈومیسٹک ہاکی کے ڈھانچے میں تبدیلی لانا ہوگی،میرٹ کو اپنانا ہوگا،قومی سطح پر ایونٹ کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا، صرف ایک سلیکشن کمیٹی سے سسٹم کو چلانے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنا ہوگی،ایسوسی ایشنوں کو فعال اور ان میں سابق کھلاڑیوں پر مشتمل سلیکشن کمیٹیا ںتشکیل دینا ہوگی، جونیئر سطح پر کھلاڑیوں کے انتخاب کے لئے الگ سسٹم بنانا ہوگا، ایشین چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کی اس سے زیادہ خراب کار کردگی ماضی کی چھ ٹرافی میں کبھی نہیں رہی، پاکستان نے 2012 ,2013 میں ایونٹ جیتا،جبکہ 2018میں اسے بھارت کے ساتھ مشترکہ فاتح قرار دیا گیا تھا،مگر اس بار قومی ٹیم کوپانچویں پوزیشن حاصل ہوئی جب یہ تحریر آپ کے سامنے ہوگی ایونٹ کی فاتح ٹیم کا نام سامنے آچکا ہوگا، پاکستانی ٹیم کی شکست اور ناقص کار کردگی پر ہاکی کے سابق اولمپئینز اور انٹر نیشنل کھلاڑی بھی شائقین کی طرح مایوس ہیں۔
ٹیم کی پر فار منس پر ہیڈ کوچ محمد ثقلین کا کہنا تھا کہ سب نے دیکھا ہے کہ پاکستان ٹیم نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان ٹیم نے طویل عرصے بعد اٹیکنگ ہاکی کھیلی۔ پاکستان ٹیم کو ایشین ہاکی چیمپئنز ٹرافی کی تیاری کا زیادہ موقع نہیں ملا صرف دو ماہ ملے جس میں نئے کوچنگ اسٹاف نے ذمہ داری سنھبالی ہے، ڈیرھ دو ماہ تو ٹیم کی فٹنس کو بہتر بنانے میں ہی لگ جاتے ہیں۔ 2014 سے پاکستان ہاکی ٹیم بھارت کے خلاف میچ نہیں جیتی، اس ٹیم میں تو 14 کھلاڑی ایسے ہیں جنہوں نے پہلی بار بھارت کے خلاف میچ کھیلا، بھارتی ٹیم پاکستان کی نسبت کافی تجربہ کار ہے، بھارت کا شمار اس وقت دنیا کی ٹاپ ٹیموں میں ہوتا ہے۔
پاکستان کی رینکنگ پرو ہاکی لیگ کی وجہ سے بہت نیچے ہے ، انہوں نے کہا کہ قومی ہاکی ٹیم کے بھارت کے ایونٹ میں شرکت سے دونوں ملکوں کے درمیان ہاکی مقابلوں کی بحالی میں مدد ملے گی،سابق ہاکی اولمپئین سلیم ناظم نے کہا کہ ہم کسی پلاننگ کے بغیر اس ایونٹ میں حصہ لینے گئے، یہ پر فارمنس ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے، حکومت کو ہاکی کے معاملات سنجیدہ اور مخلص ہاتھوں میں دینا ہوں گے، اس کے بناء مثبت نتائج نہیں مل سکیں گے، انٹر نیشنل کھلاڑی جان محمد نے کہا کہ پاکستان ہاکی میں انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے، پی ایچ ایف نے آخری لمحات میں شہناز شیخ کو کوچنگ اسٹاف کا حصہ بناکر پہلے سے موجود کوچز کی حکمت عملی کو تباہ کیا، ایسا لگتا ہے کہ فیڈریشن نے یہ فیصلہ اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو وقتی طور پر روکنے کے لئے کیا مگر اس کا اچھا اثر ٹیم پر نہیں پڑا۔
یہ حقیقت ہے کہ ایشین چیمپئینز ٹرافی میں قومی ٹیم کی خراب کار کردگی سے فیڈریشن کو بھی دھچکا لگا ہے، اسے سنجیدگی کے ساتھ اچھے فیصلے کرنا ہوں گے، ایشین گیمز سر پر ہیں،اس کے لئے فوری طور پر کیمپ لگانا ہوگا،خامیوں کو دور کرنے کے لئے قدم اٹھانا ہوگا، ٹیم کے لئے غیر ملکی مقابلوں پر توجہ دینا ہوگی، ایشیائی ٹیموں کو پاکستان بلاکر ہوم سیریز کے انعقاد کی کوشش کرنا چاہئے، کوچنگ اسٹاف میں بھی پنالٹی کار نر کے ماہر کھلاڑی کی تقرری کرنا ہوگی، گول کیپنگ کے شعبے میں زیادہ خامیاں نظر آرہی ہیں ، لیگ میچوں میں پاکستان کے خلاف 13گول ہوئے جس سے ہمارے گول کیپرز کی کم زوریوں کا اندازہ صاف لگایا جاسکتا ہے، پاکستان نے پانچ میچوں میں صرف دو گول کئے، اس سے ہمارے فاروڈز کے کم زور پہلو کا بھی احساس ہورہا ہے، پاکستانی ٹیم پنالٹی اسٹروک اور پنالٹی کار نرسے بھی فائدہ نہیں اٹھاسکی جس سے ظاہر ہورہا ہے کہ ہم نے ایونٹ کے لئے کس قسم کی تیاری کی تھی، ہماری کار کردگی میں بہت زیادہ جھول ہے، کسی بھی شعبے میں ہم خود کو مضبوط ثابت کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں، کوچز کا بھی احتساب ہونا چاہئے، ان سے بھی کار کردگی کے حوالے سے باز پرس ضروری ہے۔