اسلام آباد (فاروق اقدس/تجزیاتی رپورٹ) ’’نگران وزیراعظم کا سرپرائز، سیاستدانوں نے دیا یا سیاستدانوں کو دیا گیا‘‘،سابق سفارتکار جلیل عباس جیلانی کا نام زیر غور بھی نہیں آیا، نام پہلے سے ’’فائنل ہوچکا تھا، یہ حقیقت شاید بعد میں منکشف ہوگی کہ نگران وزیراعظم کیلئے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر انوارالحق کا انتخاب اصل میں کس کا تھا، کب ہوا، اور عوامل کیا تھے اور کس نے کیا تھا۔
کیا انوارالحق کا نام واقعتاً آخری وقت پر فائنل ہوا تھا اور وزیراعظم، اپوزیشن لیڈر بھی اصل نام سے بےخبر تھے، جیسا کہ سوشل میڈیا پر ان کی ملاقات کے حوالے سے کہا جا رہا تھا کہ وزیراعظم شہبازشریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کے درمیان نگران وزیراعظم کے نام پر مشاورت کے حوالے سے ملاقاتوں میں دونوں ایک دوسرے سے استفسار کرتے رہے کہ ’’کیا آپ کو نگران وزیراعظم کے نام کے بارے میں کچھ معلوم ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ مبینہ طور پر دونوں ہی فراہم کی جانے والی ہدایت اور حکمت عملی پر عمل کر رہے تھے۔ یہ اور ایسا تاثر جو ابتدا سے ہی موجود تھا اب سینیٹر انوارالحق کا نام نگران وزیراعظم کے طور پر فائنل کئے جانے پر تقویت پا رہا ہے اور یہ سوالات بھی تجسس کے ساتھ ہو رہے ہیں کہ نگران وزیراعظم کیلئے انورالحق کاکڑ کا سرپرائز وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر نے عوام کو دیا ہے یا خود انہیں کسی نے دیا تھا۔
یہ شبہات اس لئے بھی تقویت پا رہے ہیں کہ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف کو نگران وزیراعظم کیلئے سینیٹر انورالحق کاکڑ کا نام انہوں نے ہی دیا تھا اور وزیراعظم نے میرے دیئے ہوئے نام پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور بخوشی قبول کر لیا۔
یاد رہے کہ راجہ ریاض کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ نگران وزیراعظم کیلئے ’’ان کی مٹھی میں راولپنڈی سے ملنے والے نام کی پرچی ہے۔ راجہ ریاض کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کیا ہے تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ ’’کونسا وعدہ اور کس سے کیا تھا‘‘۔
البتہ سابق وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف نے دو روز قبل جیو ٹی وی کے پروگرام میں شاہزیب خانزادہ کے ایک سوال کے جواب میں معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ یہ ضرور کہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ نگران وزیراعظم وہ آئے جس کا نام امیدواروں کے حوالے سے سامنے ہی نہیں آیا اور نہ ہی وہ زیربحث ہے۔