اسلام آباد (فاروق اقدس/تجزیاتی رپورٹ) ملک میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی تقرری کے فیصلے کے بعد اب نگران کابینہ کے حوالے سے ناموں کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ نگران وزیراعظم کیلئے انتہائی غیر متوقع نام پر مختلف حوالوں اور پہلوؤں پر تجزیئے جاری ہیں
مولانا فضل الرحمان نے اس ضمن میں نگران وزیراعظم کو مبارکباد کے فون کرنے میں پہل کر دی تھی البتہ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سردار اختر مینگل نے نہ صرف اعلانیہ طور پر انوارالحق کاکڑ کو نگران وزیراعظم بنائے جانے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے بلکہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پر انتہائی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ایک خط بھی تحریر کیا ہے جس میں انوارالحق کاکڑ کو نگران وزیراعظم بنائے جانے کا ذمہ دار انہیں ٹھہرایا ہے، حالانکہ خط کے متن میں جو گلے شکوے اور الزامات عائد کئے گئے ہیں ان کے پیش نظر تو یہ خط لکھنا بھی تھا تو وزیراعظم شہباز شریف کو لکھنا چاہئے تھا۔
بہرحال سردار اختر مینگل کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں ’’نظرانداز‘‘ کئے جانے پر کتنا غم ہے کیونکہ پہلی مرتبہ انہوں نے تحریری طور پر یہ لب ولہجہ اختیار کیا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کے اظہار میں اتنی شدت اس وقت دیکھنے میں آئی ہے جب ذاتی طور پر ان کو نقصان ہوا ہے جن معاملات کا ذکر انہوں نے اپنے خط میں کیا ہے نہ تو وہ نئے ہیں اور ان کا تذکرہ مطالبوں کی شکل میں پہلے بھی کرتے رہے ہیں لیکن ایک ایسے موقعہ پر جب ان کے صوبے سے ان سے سیاسی طور پر بہت جونیئر کو ملک کا نگران وزیراعظم بنا دیا گیا تو ایسے موقعہ پر ان کے اظہار کا انداز سمجھ میں آتا ہے۔
یہ موضوع بھی دلچسپی کے ساتھ زیر بحث ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے تجویز کردہ ناموں کو نظرانداز کرکے پہلی مرتبہ ایوان بالا سے قدرے غیر اہم اور ایسی شخصیت جس کا اس سارے عمل میں کہیں ذکر تو دور کی بات بلکہ سیاستدانوں کے گمان میں بھی ان کا نام نہیں تھا۔ ان کے انتخاب کی وجہ کیا ہوسکتی ہے
اس حوالے سے سیاسی حلقے مختلف ’’تھیوریز‘‘ پیش کر رہے ہیں ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ ایسا بھی سوچتے ہوں کہ گزشتہ کافی عرصے سے ملک کی معاشی صورتحال، مختلف ممالک کے قرضوں کا بوجھ، آئی ایم ایف کا سخت طرزعمل اور پھر آنے والے حالات میں مشکل فیصلوں کیلئے قبل ازوقت تیاری کیلئے اب دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ ملک میں زیر زمین معدنیات کی شکل میں محفوظ خزانوں جن میں تانبے، سونے کی کانیں اور دیگر قیمتی معدنیات شامل ہیں ان سے استفادہ کیا جائے۔
ایک خبر کے مطابق ریکوڈک میں سونے کے 42 ملین اونس اور خام تانبے کے 20 ملین ٹن ذخائر پوشیدہ ہیں جن کی مالیت کا محتاط اندازہ 260 ارب امریکی ڈالر ہے(یہ اعدادوشمار اور اس سے وابستہ تفصیلات اہم واقعات اور معلومات طوالت کے باعث شامل نہیں کی جارہیں) اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہو کہ آنے والے حالات سے مقابلہ کرنے کیلئے غیر ملکی قرضوں کی شرائط اور سود کی بھاری رقم سے بچنے کیلئے کیوں نہ اپنی سرزمین پر بلوچستان میں زیر زمین ’’خزانے کی تلاش‘‘ کرکے حالات کا مقابلہ کیا جائے۔
ظاہر ہے کہ اس صورتحال میں پاک فوج کے تفکرات کا اظہار چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر بھی کرچکے ہیں تو پھر اس مقصد کیلئے بلوچستان کی شخصیات کا کردار اہم ہوگا وہاں باثر لوگوں کو اعتماد میں لیکر تعاون حاصل کرنا ہوگا
اثرونفوز رکھنے والے قبائل کے سرکردہ لوگوں کو ساتھ شامل کرنا ہوگا جن میں بگٹی، مینگل، رئیسانی، رند، جھاکرانی سمیت دیگر قبائل شامل ہیں اور ابتدائی فیصلہ کاکڑ قبیلے سے ہوا۔ دوسری طرف نگران وزیراعظم کی تقرری پر بعض ان سیاستدانوں کی خاموشی خاصی معنی خیز ہے جن کی مستقبل کی سیاست کے حوالے سے یہ فیصلہ دور رس نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ان دونوں بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین اور مرکزی راہنما اور وہ لوگ جو بیان بازی اور ردعمل دینے کیلئے ’’حادثات‘‘ کے بھی منتظر رہتے ہیں شامل ہیں۔