• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اوپن مارکیٹ اور انٹربینک ڈالر ریٹ میں 4 فیصد فرق، IMF شرائط کی خلاف ورزی

اسلام آباد ( مہتاب حیدر) انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی شرح کا فرق 1.25 فیصد برقرار رکھنے کے آئی ایم ایف کے ساختیاتی بینچ مارک کی کم از کم گزشتہ پانچ دن کے دوران خلاف ورزی ہوئی ہے ۔ گزشتہ 5 دنوں کے دوران متواتر یہ فرق 2 سے 4فیصد تک گیا اور آئی ایم ایف اکتوبر کے آواخر یا نومبر کے اوائل میں آئندہ مذاکرات کے دوران اس معاملے کو اٹھا سکتا ہے ۔ گزشتہ پانچ دنوں کے دوران شرح تبادلہ میں اضافے کے باوجود اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکسچینج ریٹ میں فرق کو درکار حد 1.25 کے اندر رکھنے میں ناکام رہا ہے۔بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے کنٹینروں کی کلیئر نس، منافع کی تقسیم اور دیگر پابندیوں نے شرح تبادلہ پر دباؤ کو بڑھایا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرط سے ڈالرائزیشن کا عمل شروع ہورہا ہے کیونکہ انٹربینک مارکیٹ اوپن مارکیٹ کو فالو کر رہی ہے کیونکہ ہر کوئی جانتاہے کہ ڈالر میں سرمایہ کاری کرنے سے فائدے بڑھیں گے۔ اس نمائندے نے اس حوالے سے دو دن قبل جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ایک سوال ارسال کیا کہ آیا آئی ایم ایف کے بینچ مارک کی گزشتہ پانچ دنوں کے دوران خلاف ورزی ہوئی یا نہیں ، کیونکہ اوپن مارکیٹ اور انٹربینک میں فرق 4 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کے ترجمان نے جواب دیا کہ ’’ ہمارے پاس اس پر تبصرے کےلیے کوئی چیز نہیں ہے‘‘۔آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کے تحت یہ ضروری تھا کہ یہ فرق 1.25 فیصد سے زیادہ نہ بڑھے۔ انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر گرتورہی ہے مگر یہ اب بھی 295 روپے فی ڈالر ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں یہ 305 روپے رہے اور اسطرح فرق 3.4 فیصد ہے۔ یکم جنوری 2023 سے 15 اگست 2023 تک ڈالرکے مقابل روپے کی قیمت میں 22.32 فیصد کی کمی ہوئی ہے ۔آزاد اکنامسٹ اس خوف کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس عرصے کے دوران روپے کی شرح تبادل میں متواترکمی ہوتی جائے گی جس عرصے میں شرح تبادلہ کی مارکیٹ کی بنیاد پرتدریجی واپسی ہوگی ۔جہاں روپے کو آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد ایک سہارا ملا تھا وہیں یہ اثر مارکیٹ کے اعتماد کا مظہر بھی تھا ۔ لیکن چونکہ مالی سال 2023 کے آغاز سے ہی فروسودگی کا رحجان اقتصادی بنیادوں کی فرسودگی کی وجہ سے تھا چنانچہ مارکیٹ کا اعتماد محض عارضی ثابت ہوا اور روپے ڈالر کا ایکسچینج ریٹ آی ایم ایف سے ایس بی اے معاہدے سے پہلے کی سطح پر واپس چلاگیا۔ روپے کی قدر میں حالیہ کمی کو منڈی کی طے کردہ شرح تبادلہ قراردیاجاسکتا ہے جس میں رسمی اور غیر رسمی مداخلت نہیں کی جارہی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مداخلت اس کے ریزرو کو بڑھا کر 6.4 ارب ڈالر کی کم از کم حدتک لانے کےلیے ہیں تاکہ دسمبر 2023 تک ایک مہینے کا امپورٹ کور برقرار رہے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی نقد اددائیگی کی پوزیشن 4 ارب ڈالر سے کم رکھنا ہے۔ فارن ایکسچینج سیلز روپے کی قدر میں کمی روکنے کےلیے استعمال نہیں کی جائے گی ۔ 26 جون 2023 کو پالیسی ریٹ بڑھا کر 22 فیصد کیا گیا تھا اور اسے اس وقت تک بڑھایاجاتا رہے گا جب تک کہ افراط زر کے اعدادوشمار کا رحجان نیچے کی جانب نہیں ہوتا۔ حقیقی پالیسی ریٹ کو مثبت علاقے میں لایاجاسکتا ہے۔ دسمبر 2022 میں جاری ہونے والے ایک سرکلر کی واپسی کے بعدجس میں کہ خاص قسم کی درآمدات کےلیے زرمبادلہ کے اجرا میں بینک ترجیح دیں گے اور خاص قسم کی درآمدات پر پابندیاں رکھیں گے ۔ اس طرح کی دیگر بہت سی کرنسی پریکٹسز نے شرح تبادلہ پر دباؤ کو بڑھایا۔

اہم خبریں سے مزید