لندن (ایجنسیاں)سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن)کی سینئر لیڈر شپ سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ ہوا ہے کہ نواز شریف اکتوبر میں وطن واپس آکر قانون کا سامنا کریں گے اورپارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت کریں گے‘شفاف احتساب وقت کی اہم ضرورت ہے جس کے بغیر پاکستان کی ترقی ممکن نہیں ‘ عدالتوں نے نواز شریف کے ساتھ دہرا معیار اپنایا‘سازش کے تحت انہیں پاناماکیس میں ملوث کیاگیا‘آج پوری قوم کے سامنے حقائق آچکے ‘وقت پر انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ‘چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو چیئرمین پی ٹی آئی کا جیل میں احوال پوچھنا یاد آگیامگر جب نوازشریف اور مریم کو اڈیالہ جیل میں زمین پر سلایاگیا‘قائد ن لیگ کو لندن میں اپنی بیماری بیوی سے بات نہیں کروائی گئی تو اس وقت چیف جسٹس کہاں تھے ‘اللہ بعض ججوں کو ہدایت عطا فرمائے۔جمعہ کو لندن میں پارٹی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ پاناما میں نواز شریف کا نام دور دور تک نہیں تھا جبکہ دیگرلوگ جن کا پاناما میں نام تھا ان کو آج تک کسی نے نہیں پوچھا۔اقاما میں جو فیصلہ کیا گیا وہ بدنیتی پر مبنی تھا، آج پوری قوم کے سامنے حقائق آ چکے جس کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو چکا۔پی ٹی آئی دور میں ان کے خلاف بنائے گئے مقدمات سے متعلق سوال پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران نیازی اور شہزاداکبر سمیت ان کے حواریوں نے پاکستان کےکروڑوں روپے خرچ کیے تاکہ موسوی سے میرے خلاف کوئی بات نکلوائی جائے یا این سی اے میں میرے خلاف کوئی فیصلہ لیا جائے۔شہباز شریف نے کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو چیئرمین پی ٹی آئی کا جیل میں احوال پوچھنا یاد آگیامگر جب نواز شریف اپنی بیٹی کے ساتھ پاکستان واپس آیا تو انہیں سیدھا اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا تو وہاں پہلی رات انہیں زمین پر سلایا گیا اور جیل کا کھانا دیا گیا تو اس وقت چیف جسٹس کہاں تھے۔اس وقت ان کو یاد کیوں نہیں آیا کہ یہ نا انصافی کی آخری حد ہے۔جب نواز شریف اڈیالہ جیل میں تھے اور کلثوم نواز لندن میں شدید علیل تھیں تو بھرپور کوشش کے باوجود نواز شریف سے بات نہیں کروائی گئی‘کاش چیف جسٹس اس کا بھی پوچھ لیتے کیونکہ انہیں بخوبی علم تھا۔