عاصمہ ثاقب
ترقی یافتہ، پسماندہ، قدرے غریب ممالک یا پھر ان ممالک کے نوجوان جو ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت پیچھے ہیں، وہاں کے نوجوان زیادہ تر سرکاری اداروں میں نوکری کو ترجیح دیتے ہیں، جب کہ ترقی پذیر ممالک میں صورتحال مختلف ہے۔
عام تاثر یہی ہے کہ پاکستان میں سرکاری نوکری مراعات بخش اور اثر و رسوخ والی ہوتی ہے، جبکہ پرائیویٹ ملازمت میں کوئی گارنٹی نہیں ہوتی، دوسرے کام بھی زیادہ کرنا پڑتا ہے، سرکاری مراعات بھی نہیں ملتیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سرکاری محکموں میں معمولی سے معمولی ملازمت کے اشتہار پر لاکھوں امیدوار درخواستیں دائر کر دیتے ہیں۔ سرکاری ملازمت کو بہت زیادہ پسندکیا جاتا ہے۔
پڑھے لکھے، ذہین، محنتی اور باصلاحیت نوجوان سرکاری نوکری کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اس وقت تو ایسا لگ رہا ہے کہ سرکاری نوکری ہر نوجوان کا خواب ہے۔ بہت سے نوجوان اپنے خواب کو تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے اپنی پسندیدہ نہ سہی لیکن سرکاری ملازمت کے حقدار ٹھہرے۔
گریجوئیشن کا طالب علم دورانِ تعلیم ہی اچھی ملازمت اور پُر آسائش مستقبل کے خواب دیکھنے لگتا ہےاور تصور کی آنکھ سے وہ خود کو ٹائی لگائے ایئر کنڈیشنڈ آفس میں بیٹھے فائلوں کی ورق گردانی کرتے گھومنے والی کرسی پر بیٹھا خوش ہورہا ہوتا ہے، انٹر کام پر ڈھیر سارا کام سیکریٹری کے حوالے کرتا ہے تو دل ہی دل میں خوش ہو جاتا ہے۔یہ سب حقیقت ہونا ناممکن بھی نہیں، مگر سچ یہ ہے کہ ایسا صرف کچھ نوجوانوں کے لیے ہی ممکن ہو پاتا ہے۔
سرکاری نوکری کا ہر اشتہار دیکھ کر وہاں درخواست دینے میں ڈگری یافتہ نوجوان د یر نہیں کرتے، چاہے وہ میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کی سند رکھنے والوں کے اہل امیدواروں کی ہی آسامی کیوں نہ ہو۔ کچھ نوجوان ایسے ہوتے ہیں جن کے والدین سرکاری ملازمت سے وابستہ ہوتے ہیں ان کے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے بھی ڈگری حاصل کرکے کسی اچھی سرکاری ملازمت پر لگ جائیں۔
کئی باتوں کی وجہ سے اس کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مثلا زیادہ تنخواہ، پنشن، جاب سیکیورٹی وغیرہ، پھر کارپوریٹ سیکٹر کی طرح یہاں ہائر اینڈ فائر والی پالیسی نہیں ہوتی کہ آپ کو جس وقت چاہا ملازمت سے نکال دیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں گریڈ اور سکیل کی چمک دمک ہوتی ہے۔ سرکاری افسران فخریہ طور پر اپنا تعارف کراتے وقت اپنے گریڈ کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔سرکاری ملازمت کے حصول میں جد جہد کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے، مگر تعلیم یافتہ نوجوانوں کو زنگ آلود کرنے کا سبب بن رہی ہے ، کیوں کہ وہ اس کے حصول کے لیے اپنا بہترین وقت گنوا دیتے ہیں۔ اس کے انتظار میں بیٹھے رہنے والے نوجوانوں کے مقدر میں ناکامی ہی ہوتی ہے۔
آج بھی لاکھوں نوجوان اسی فکر میں غلطاں رہتے ہیں کہ کسی بھی طرح سرکاری نوکری مل جائے۔ سوال یہ ہے کہ سرکاری نوکریاں کتنی ہیں۔ تمام پڑھے لکھے نوجوانوں کو تو سرکاری نوکریں نہیں مل سکتیں۔ مختلف عمومی شعبوں کی طرف نوجوان اس لیے نہیں جاتے کہ ان میں محنت بہت کرنی پڑتی ہے۔ نوجوانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عملی زندگی کے آغاز ہی میں ہی بہت کچھ پانے کی اُمید نہیں رکھنی چاہیے۔
سرکاری نوکری کا آسرا لاکھوں نوجوانوں کو برباد کر چکا ہے نجی اداروں میں آمدنی سرکاری سے زیادہ ہوتی ہے لیکن نوجوان اس کی طرف محض اس لیے نہیں جاتےکہ ان میں محنت کا جذبہ نہیں ہے اور وہاں ایسا ہو نہیں سکتا۔ اُنہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ زندگی جدوجہد کا نام ہے۔ اگر دل جمعی سے محنت کی جائے تو بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ نوجوانوں کو چیلجنگ کاموں کی طرف مائل ہوں۔ یقین کریں کہ پھر ان کے سامنے کوئی طاقت کھڑا ہونے کی سکت نہیں رکھے گی۔