پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم نے عالمی چیمپئن شپ میں سلور میڈل جیت کر مہنگائی اور بے روزگاری سے دوچار قوم کے چہروں پر خوشی کی لہر پیدا کردی، وہ پہلے پاکستانی ایتھلیٹ ہیں جنہوں نے عالمی مقابلے میں سلور میڈل کو اپنی زینت بنایا، ارشد ندیم اب تک اولمپکس گیمز، اسلامک گیمز، کامن ویلتھ گیمز ، ساؤتھ ایشین گیمز،ایشیائی جونیئر ایتھلیٹکس چیمپئن شپ، عالمی انڈر20 چیمپئن شپ،ایشیائی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ سمیت کئی عالمی اور ایشیائی مقابلوں میں چار گولڈ اور چار برانز میڈلز اور سلور میڈل جیت چکے ہیں۔
ارشد ندیم 2 جنوری 1997 کو میاں چنوں میں پیدا ہوئے، کامن ویلتھ گیمز بر منگھم اور ترکی کے اسلامک گیمز میں گولڈ میڈل جیتنے کے بعد وہ پوری قوم کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، مگر ہنگری کے شہر بڈاپسٹ میں ہونے والی عالمی چیمپئن شپ کے جیولن تھرو کے مقابلے میں ارشد ندیم دوسرے نمبر پر رہے جبکہ بھارت کے نیرج چوپڑا آدھے میٹر سے بھی کم فرق کی وجہ سے گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
اس کامیابی کے بعد ارشد ندیم دنیا بھر کے میڈیا پر چھا گئے،ہر طرف ان کی دھوم مچی ہوئی ہے، وہ ملکی سطح کے مقابلوں میں واپڈا کی نمائندگی کر تے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ارشد ندیم کی کام یابیوں میں پاکستان ایتھلیکٹس فیڈریشن کے صدر میجر جنرل (ر) اکرم ساہی کا کردار بہت اہم ہے جنہوں نے ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور انہیں سہولتوں کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا ہے، ارشد ندیم نےدسمبر 2019ء میں 86.29 میٹر کے فاصلے کے ساتھ جیولین تھرو میں جنوبی ایشیائی گیمز کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا، اس طرح 2020سمر اولمپکس میں براہ راست کوالیفکیشن حاصل کی۔
ارشد ندیم کا تعلق میاں چنوں کے قریب واقع گاؤں چک نمبر 101-15 ایل سے ہے،ان کے والد راج مستری ہیں لیکن انہوں نے اپنے بیٹے کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی ہے۔ ارشد ندیم کے کریئر میں دو کوچز رشید احمد ساقی اور فیاض حسین بخاری کا اہم کردار رہا ہے۔ ورلڈ چیمپئن شپ میں کامیابی کے بعد ارشد ندیم نے جنگ سے بات چیت میں کہا کہ اپنی فتح پر پوری قوم،فیڈریشن اور دوستوں کا مشکور ہوں جنہوں نے میری جیت کے لئے بہت دعائیں کیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں اس کھیل میں بہت ٹیلنٹ ہے، مگر مواقعوں کی کمی ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں بڑی رکاوٹ ہے، بھارت کے ایتھلیٹ نیرج چوپڑا پورے سال امریکا، اور دیگر ملکوں میں ٹریننگ کرتے ہیں، اگر اس قسم کا موقع مجھے بھی مل جائے تو میں گولڈ میڈل جیت سکتا ہوں، ملک میں ایتھلیٹکس کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، حکومت سے درخواست ہے کہ بین الاقوامی سطح کی سہولتیں اور کوچ مہیا کرے، سہولتیں ہوں گی تو بہتر پرفارم کرسکوں گا۔
انہوں نے کہا کہ میری بھارت کے ایتھلیٹ نیرج چوپڑا سے اچھی دوستی ہے،انجری کے بعد تھوڑی مایوسی پیدا ہوگئی تھی، مگر فٹ ہونے کے بعد اس ایونٹ میں حصہ لیا، ارشد نے بتایا ک کہ جب وہ چھٹی ساتویں جماعت کے طالبعلم تھے، شروع سے ہی کھیلوں کا شوق تھا۔
اس زمانے میں ان کی توجہ کرکٹ پر زیادہ ہوا کرتی تھی اور وہ کرکٹر بننے کے لیے بہت سنجیدہ بھی تھے لیکن ساتھ ہی وہ ایتھلیٹکس میں بھی دلچسپی سے حصہ لیتےتھے۔ وہ اپنےا سکول کے بہترین ایتھلیٹ تھے،ارشد ندیم کا سفر میاں چنوں کے گھاس والے میدان سے شروع ہوا جو انہیں کامن ویلتھ گیمز میں لے گیا۔
ارشد ندیم شادی شدہ اور ان کا ایک بیٹا ہے، ان کی جیت پر میاں چنوں اور ان کے گھر کے باہر مداحوں نے بھر پور جشن منایا، ان کے اہل خانہ کو مٹھائی کھلائی، ارشد کی والدہ نے کہا کہ دعائیں کرنے پر پورے پاکستان کی شکر گزار ہوں، بیٹا آئندہ بھی ملک کا نام روشن کرے گا۔
ارشد کے بھائی کہا کہ انجری کے باوجود ارشد کی کارکردگی بہت زبردست رہی ،کامیابی پر رب کے شکر گزار ہیں،ارشد ندیم کے موجودہ کوچ فیاض حسین بخاری ہیں جن کا تعلق پاکستان واپڈا سے ہے۔ وہ خود بین الاقوامی ایتھلیٹکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔