طاہرہ پروین جعفری
تعلیم مکمل ہونے کے بعد جب نوکری کے لیے انٹرویو کا مرحلہ آتا ہےتو اس وقت اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ ’’ تجربہ کتنا ہے؟‘‘ ایک فریش گریجویٹ کا جواب اکثر نفی میں ہوتا ہے۔ گریجویشن یا ماسٹر کی ڈگری ہاتھ میں تھامے طلباء وطالبات کی بڑی تعداد ، نوکری کی منتظر اس وجہ سے بھی دکھائی دیتی ہے کہ متعلقہ ادارے تجربہ کار افراد کو ملازمت پر رکھنے کے خواہشمند ہوتے ہیں یا ملازمت کی مخصوص نشستیں تجربہ کار افراد کے لیے ہی مختص کی جاتی ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں نوکری کی عمر پچیس سال سمجھی جاتی ہے اور اکثر لوگ اس سے قبل کوئی کام نہیں کرتے۔ ایسا صرف ہمارے ملک میں ہے کہ دوران تعلیم کسی قسم کا دوسرا کام نہیں کرنے دیا جاتا، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں اس کے برعکس ہے۔ وہاں ہر طبقے کے نوجوان دوران تعلیم کوئی نہ کوئی ایسا کام کرتے ہیں، جس سے انہیں کچھ نہ کچھ آمدنی حاصل ہو اور سترہ، اٹھارہ برس کا تقریباً ہر نوجوان پارٹ ٹائم کام کرتا نظر آئے گا اور پچیس برس میں زیادہ تر اپنے پیروں پر مکمل طور پر کھڑے ہوچکے ہوتے ہیں۔
ہمارے وطن میں غریب گھر کے بچے تو اکثر بچپن سے ہی محنت مزدوری کرنے لگتے ہیں، مگر ان میں ایسے بچوں کی تعداد زیادہ ہے جو تعلیم حاصل نہیں کرتےلیکن یہاں ان لوگوں کی بات کررہے ہیں جو تعلیم یافتہ نوجوان ہیں اور ان میں سے اکثر نوجوانی کو صرف موج مستی کی عمر سمجھتے ہیں اور اپنی توانائی کا بہترین وقت ضائع کرتے ہیں، بلکہ ہمارے یہاں تو اچھی خاصی عمر بیت جانے کے باوجود بھی اکثر والدین اپنی اولاد کی کفالت کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کی عمر کے بعد بھی محنت کرتے ہیں۔ زمانہ جس تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے، مہنگائی کا طوفان صرف ایک فرد سے قابو میں نہیں آسکتا۔
گھر کے کفیل کے ساتھ ساتھ سب کو محنت کرنا ہوگی، بالکل اسی طرح جیسے اسکول سے پہلے پری اسکولنگ۔ ماں ڈھائی سال کی عمر کے بچے کو اسکول جانے کے لیے تیار کرواتی ہے۔ اس عمر میں بچہ کوئی بڑی کتابیں نہیں پڑھتا بلکہ صرف اُس وقت کے لیے تیار ہوتا ہے، جس میں اس کے لیے آگے چل کر آنا ہے۔ والدین اور گھر سے ہٹ کر چند گھنٹے گزارنا اور وہ وہاں نئے لوگوں سے ملنا جلنا ان کے ساتھ ایک الگ ماحول میں رہنا سیکھتا ہے اور ابتدائی تعلیم سے پہلے وہ کھیل کود کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھتاہے، بالکل اسی طرح پارٹ ٹائم جاب ایک طرف جہاں بہتر روزگار کی ایک صورت ہوتی ہے تو دوسری طرف تجربہ کے حصول کے لیے بھی ایک اچھا آپشن ہے۔
مغربی ممالک میں طلبہ وطالبات پڑھائی کے ساتھ کوئی نہ کوئی ہنر ضرور سیکھتے ہیں کیونکہ یہ نہ صرف ان کی صلاحیتوں کو نکھارتا اور تجربہ حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ معاشی طور پر خوشحالی بھی فراہم کرتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں معاشرتی اقدار میں روز بروز تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، وہیں بہت سے ایسےکام ہیں جو پارٹ ٹائم دوران تعلیم بھی کیے جاسکتے ہیں، اس وقت انٹرنیٹ پر ایسی بےشمار سائٹس موجود ہیں جن میں مختلف کاموں کے لیے فری لانسرز کی ضرورت ہوتی ہے۔
مثلاً کونٹینٹ رائٹر، ویب ڈیویلپر، گرافکس ڈیزائنر، ڈیٹا انالسٹ، ڈیٹا انٹری میں ماہر افراد وغیرہ۔ ان ویب سائٹس پر اپنا اکاؤنٹ بنا کر بطور فری لانسر اپنے کیریئر کا آغاز کرسکتے ہیں اور یہ آغاز آپ کے تجربے میں ایک خاص اضافہ ثابت ہوگا دوسری طرف ملک کی افرادی قوت میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے، اگر دوران تعلیم ہی آپ کسی ادارے یا کمپنی جوائن کرلیتے ہیں تو ڈگری ملنے کے بعد وہیں ملازمت کے چانس زیادہ بڑھ سکتے ہیں۔ کام کرنے کا تجربہ چاہے وہ کسی بھی نوعیت کا ہو، خواہ آپ کے شعبے سے ہٹ کر ہی کیوں نہ ہو، مگر وہ کام ضرور آتا ہے۔
کسی ادارے میں کس طرح کام کرنا چاہیے، لوگوں سے کس قسم کا رویہ ہونا چاہیے، اس کا بخوبی تجربہ ہو جاتا ہے۔کسی بھی ادارے میں ملازمت حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ انٹرن شپ ہے۔ بہت سے شعبہ جات نئے آنے والے طلبہ و طالبات کے لیے ہر سال مخصوص انٹرن شپ نشستوں کا اضافہ کرتے ہیں۔ انٹرن شپ ایک مدت کے لیے ہوتی ہے، جس کے بعد آپ کی کارکردگی دیکھ کر ملازمت کی پیشکش کردی جاتی ہے۔
انٹرن شپ کے بہت فوائد ہیں۔ مثلاََ اعتماد بڑھتا ہے، سوشل نیٹ ورکنگ میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ تھیوری اور پریکٹیکل کے فرق کو سمجھنے کے لیے ایک نادر موقع ہاتھ آتا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں نوجوانوں کی تعداد بہت قلیل ہے اور وہ ہمارے ملک پر رشک کرتے ہیں ، لہٰذا اپنی اس طاقت کا بھرپور استعمال کرنا ہوگا۔