اسلام آباد(نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ نے نیب آرڈیننس ترمیمی ایکٹ 2022کے خلاف دائر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی آئینی درخواست پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے‘دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آبزرویشن دی ہے کہ نیب ترمیمی ایکٹ کو واضح ہونا چاہیے تھا، کیا ایک مبہم قانون قائم رہ سکتا ہے؟ نیب ترامیم کامقصد تویہ ہوا کہ سزایافتہ مجرم کہے گا کہ میری سزا ختم ہوگئی ہے اس لئے پیسے واپس کرو‘چیف جسٹس نے کہا ہے کہ"حالیہ ترامیم کے ماضی سے اطلاق کا مقصد کیا ہے؟‘جسٹس اعجاز الااحسن نے کہاکہ ایسا نہیں ہے کہ پارلیمنٹ جو چاہے وہ کر لے، جو شخص 1985 میں جرم تسلیم کر چکا ہے اور رقم ادا کر دی ہے کیا 2020 میں اسکی سزا ختم کر کے رقم واپس کردیں گے؟جسٹس منصور علی شاہ نے ایک بار پھر پارلیمنٹ کی خود مختاری کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ کیا آئین پارلیمنٹ کو موثر بہ ماضی قانون بنانے کی اجازت نہیں دیتا ہے؟ آئین پڑھ کر بتائیں کہ پارلیمنٹ ایسا قانون نہیں بنا سکتی ہے جس کا اطلاق ماضی سے ہو؟ درخواست گزار عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے نیب ترمیمی ایکٹ میں خامیوں کی نشاندہی پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ زیر غور کیس میں عدالت کیا کر سکتی ہے؟قانون سازی کے وقت تمام پہلوئوں کا جائزہ لیا جانا چاہیے تھا،جسٹس منصور علی شاہ نے تجویز دی کہ معاملہ واپس پارلیمان کو بھیجا جا سکتا ہے،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم پارلیمان کو بھیج دیتے ہیں تو اس دوران نیب ترمیمی ایکٹ کا کیا ہو گا؟کیا قانون کو کالعدم قرار نہیں دینا ہو گا؟ خواجہ حارث نے چیف جسٹس کی آبزرویشن سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوال اہم ہے کیونکہ اکثر لوگ ان ترامیم سے فائدہ اٹھا چکے ہیں ، پراسکیوٹر جنرل نیب نے بتایا کہ 2022 میں 386 ریفرنس ہمیں واپس ہوئے ہیں،۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اٹارنی جنرل کے پیش نہ ہونے پر معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ملک میں موجود نہیں ہیں تاہم ان کی جانب سے تحریری معروضات جمع کروادی جائیں گی ،جس پر چیف جسٹس نے کہا پہلے بتا دیتے تو ہم ریگولر بینچ میں بیٹھتے، میری ریٹائرمنٹ قریب ہے ،ریٹائرمنٹ سے قبل شارٹ اینڈ سویٹ فیصلہ سنائیں گے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میںجسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی تو عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل پیش کئے تو جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کہاں ہیں؟جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے عدالت کو بتایا کہ وہ بیرون ملک گئے ہوئے ہیں، ان کی جانب سے جواب جمع کرا دوں گا، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اٹارنی جنرل نے نہیں آنا تھا تو عدالت کو بتا دیتے، ا ن کے نہ آنے کا معلوم ہوتا تو معمول کے مقدمات کی سماعت کرتے، ان کی وجہ سے صبح ساڑھے 9 بجے کیس مقرر کیا تھا۔