کراچی (باسم رضا/ یاسر قریشی/ صلاح الدین احمد) قانون کا یہ کلیہ ہے کہ تمام جج صاحبان مساوی ہیں تاہم ایک لاطینی کہاوت ہے کہ چیف جسٹس عدالت کی نظر میں تمام مساوی جج صاحبان میں اولین ہے۔ ویسے یہ اجتماعی دانش کی بات ہے ورنہ چیف جسٹس کا انفرادی نقطہ نظر کوئی وزن نہیں رکھتا لیکن کیا چیف جسٹس صاحبان کا عمل وہی ہے جس کے وہ مبلغ ہیں۔ روسٹر کے ماسٹر کے طور پر وہ بنچوں کی تشکیل کے لئے اپنے بے لگام صوابدیدی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہیں جس سے بنچ کے رکن کی حیثیت سے ادارہ جاتی منتظم کی حیثیت سے ان کا کردار دھندلا جاتا ہے۔ کیا چیف جسٹس صاحبان قول و فعل میں یکسانیت کے تقاضے کو پورا کرتے ہیں یا روسٹر تشکیل دیتے وقت اپنے فطری خواہشات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ پاکستان میں اس حوالے سے بحث کوئی نئی نہیں ہے۔ بھارت میں 5؍ سال قبل سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے ایک پریس کانفرنس میں چیف جسٹس دیپک مسرا پر ملک و قوم اور عدلیہ کے لئے دور رس مضمرات کے حامل مقدمات کے لئے اپنی مناسبت سے ججوں کا انتخاب کیا لیکن افسوسناک بات ہے کہ جب مذکورہ چار باغی ججوں میں سے ایک جسٹس گوگوٹی خود بھارت کے چیف جسٹس بنے تو انہوں نے اصلاحات لانے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ بھارت میں ماہرین تعلیم، کینیڈا اور جنوبی افریقا میں حدود اختیار کے حوالے سے بنچوں کی تشکیل کے لئے چیف جسٹس کے اختیارات کی شماریاتی طور پر چھان بین اور جانچ پڑتال کی بعض مواقع پر بنچوں کی تشکیل کے لئے چیف جسٹس کی جانب سے اپنی مناسبت میں فیصلوں کے حصول کے لئے جواب اثبات میں آیا۔ دیگر ممالک جیسے فلپائن، نیپال اور برازیل میں بنچوں اور روسٹر کی تشکیل بے ترتیب ہوتی ہے، لہٰذاوہاں اس پر سوال ہی نہیں اٹھتا یہاں عدالت عظمی کے تمام بنچوں کو یکساں مینڈیٹ حاصل ہوتاہے۔ پاکستان میں بحث سیاسی اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ پی ڈی ایم سے وابستہ رہنما گزشتہ چند برسوں سے یہ الزام عائدکرتے رہے کہ سپریم کورٹ میں ججوں کا ایک گروپ اہم سیاسی مقدمات میں نظریاتی جھکائو رکھتا ہے ان ججوں کی اکثریت کو ایسی بنچوںمیں شامل کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات، اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کے لئے پی ٹی آئی کا حق، آئین کے آرٹیکل A-63 کی تشریح، نیب آرڈیننس میں ترامیم اور مظاہر نقوی کی آڈیو لیکس کی تحقیقات شامل ہیں جبکہ ہارنے والے فریقوں کی جانب سے فیصلے دینے والی بنچوں کو جانب دار قرار دینا بھی غیر معمولی نہیں ہے ۔ ان الزامات کے اہمیت اختیار کرنے کی بھی تین وجوہ ہیں۔ اول چونکہ گزشتہ دو سال کے عرصہ میں ہائی پروفائل سیاسی مقدمات اس تواتر اور شدت کے ساتھ زیر سماعت آئے ہیں کہ عدلیہ کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیںملتی کسی بھی درخواست گزار کی جانب سے ایک رسمی استدعا فل کورٹ تشکیل دینے کے لئے کافی ہے ان کے علاوہ درخواستیں زیر غور نہیں لائی جاتیں۔ دوسرے بنچوں کی تشکیل اور انہیں مقدمات تفویض کرنے کے حوالے سے اختیارات کے غلط استعمال کاتاثر درست بھی ہے تو پارلیمنٹ کے ذریعہ دو علیحدہ ایکٹس کی منظوری، جن کے تحت سپریم کورٹ کے طریقہ کارکو باقاعدہ بنایا شامل ہے۔ اس وقت کے وفاقی وزیر خرم دستگیر نے پارلیمنٹ سے خطاب میںدستور سازی کی حمایت کی اور کہا کہ بنچوں کی تشکیل کسی ایک شخص کی صوابدید نہیں ہے۔ تیسری اور سب سے زیادہ اہم بات یہ ہےکہ عدالت عظمی کے کم از کم 7؍ حاضر ججوںنے بنچوں کی تشکیل کے معاملے میں چیف جسٹس کے اختیار پر مختلف مواقع پر سوال اٹھایا اور اپنے بنچوںمیں شمولیت سے مسلسل نظرانداز کئے جانے پر احتجاج بھی کیا۔ حال ہی میں ریٹائر سٹس باقر نے بھی اہم اور حساس مقدمات کے لئے قائم بنچوںمیں اپنی عدم شمولیت کی شکایت کی جن سےججوں کی غیرجانبداری پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔دیگر ججوں نے تاہم ’’ماسٹر آف دی روسٹر‘‘ کی حیثیت سے چیف جسٹس کی بالادستی کی شدت سے حمایت کی اور اسے ایک طے شدہ آئینی ایشو قرار دیا۔ اب کون اس معاملے میں درست ہے؟ آیا چیف جسٹس صاحبان روسٹر کی تشکیل کا حق رکھتے ہیں؟ کچھ ججوں کومنظم طریقے سے بنچوںمیںشامل اور دیگر کونظرانداز کیا جاتا ہے۔ اہم سیاسی نوعیت کے مقدمات کے لئے بنچوں کی تشکیل میں چیف جسٹس (دانستہ یا غیر دانستہ طور پر) جانبداری سے پیش آتے ہیں۔ ایسے میں اس کی ٹھوس وجہ موجود ہے کہ معاملے کو ریگولیٹ کیا جائے۔ ان سوالات کے جوابات کے لئے ہم 31؍ دسمبر 2016ء سے 30؍ جون 2023ء تک کے اعداد و شمار کو بروئے کار لاسکتے ہیں جو تین چیف جسٹس صاحبان کی اس حیثیت میں مکمل میعاد ہے۔ اس میں موجودہ چیف جسٹس کے بھی تین ماہ کا عرصہ شامل ہے۔ اس دوران فیصلوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا جو قانون سے معلق دو جرنلز میں درجہ یں۔ اس میں سیاسی اہمیت کے حامل فیصلوں کی نشاندہی کرنا ہوگی۔ یقیناً یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا کہ کون سا مخصوص مقدمہ سیاسی طور پر اہم یا غیر اہم ہے اور اسے غیر معروضی قرار دیکر خارج کیا جاسکتا ہے چونکہ غیر معروضی مقدمات کو خارج کرنا ممکن نہیں لہٰذا سیاسی طور پر اہم مقدمات کو محدودکرنے کا معیار مقرر کرلیا جانا چاہئے۔ (1)کسی سیاسی جماعت کی جانب سے یا اس کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا ہو (2) مقدمہ جس میں کسی اہم شخصیت کی اعلی ترین منصب کے لئے اہلیت کا معاملہ درپیش ہو (3) انتخابات کرانے یا انتخابی اثرات کا معاملہ ہو (4) کسی سیاستدان جس کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہوں، سنگین بداخلاقی، قابل تعزیر جرائم، ضمانت پر ہونے اس پر سفری پابندیاں ، اثاثے اور کھاتے منجمد ہوں، ایسے مقدمات (5) بڑی دستوری، پالیسی، تقرریوں سے متعلق امور انتظامی فیصلوں کو جو وفاقی اور صوبائی سطح پر ہوں جس کے حکمرا ںجماعت یا اتحاد پر براہ راست اثرات مرتب ہوں (6) جس میں مسلح افواج، انٹیلی جنس اداروں اور ان کے سربراہوں کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ایشو ہواس معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے مذکورہ عرصہ میں 134 اہم سیاسی فیصلوں کی نشاندہی کی گئی ہے (7) سینئر ججز میں سے وہ جو گزشتہ 5؍ سال سے سپریم کورٹ کا حصہ ہیں (ایک گروپ جس میں جسٹسز بندیال، عیسیٰ، مسعود، احسن، اختر اور آفریدی) شامل ہیں انہیں اہم سیاسی مقدمات کا دیا جانا اعداد و شمار سے و اضح ہے۔ درج ذیل جدول اہم سیاسی مقدمات میں مذکورہ 7؍ ججوں کی بنچوںمیں شمولیت کے تسلسل کو ظاہر کرتے ہیں۔ جب بات سیاسی طور پر اہم مقدمات کے حوالے سے ہوتی ہے تو ایک نمایاں تفاوت موجود ہے۔ اعجاز الحسن اور عمرعطا بندیال جسٹس صاحبان اور ( اعدادوشمار کے حوالے سے ) کچھ دوری پر جسٹس منیب اختر (ان کیسز میں موجودہ اور سابق چیف جسٹسز کے ادوار میں ڈرامائی طور پر زیادہ شامل رہے ہیں۔)وہ اس قسم کے بینچوں میں دیگر ۴کی نسبت زیادہ زیادہ رہنے کا امکان ہے۔ درحقیقت جب سیاسی طر پر اہم کیسز بینچوں کو تفویض کیے جاتے ہیں یا سیاسی حوالے سے اہم مقدمات کو سننے کےلیے خصوصی بینچ تشکیل دیے جاتے ہیں تو چیف جسٹس صاحبان کی جانب سے ان مین جسٹس اعجاز الحسن کو شامل کیے جانے کا امکان جسٹس سردار طارق کی نسبت 9 گنا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کچھ ججز دوسروں کی نسبت زیادہ برابر ہیں۔ہم نے ہر چیف جسٹس کے دورانیے کا ڈیٹا الگ سے بھی علیحدہ کیا ہے۔ اس میں بھی دلچسپ پیٹرن نکل کرسامنے آتے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں 60 اہم سیاسی مقدمات کے فیصلے ہوئے۔ 33مرتبہ وہ خود ان مقدمات کی سماعت کا حصہ تھے جبکہ جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس بندیال بالترتیب 30 اور 26 مقدمات میں بیٹھے۔ اس سپیکٹرم کے آخر میں جسٹس سردار طارق ، منصور علی شاہ اور یحییٰ آفردی جیسے جسٹس صاحبان آتے ہیں جنہیں ا س دور نمیں بالترتیب 3، 0اور 0مرتبہ بیٹھنے دیا گیا۔ یہاں یہ بھی نوٹ کرنا ضروری ہے کہ آخری دونوں ججز چیف جسٹس ثاقب نثا ر کے دورکے وسط میں مقرر کیے گئے تھے۔ اب چیف جسٹسز سیاسی طور پر اہم مقدمات کے لئے بنچوںمیں 5؍ بار یا اس سےزائد شامل رہے۔ خصوصاً چیف جسٹس نثار کے دور میں اسے زیادہ ترجیح دی گئی تاہم سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے دور میں باہم تعلق کی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ادارہ جاتی فعالیت اور قانونی حیثیت کو تحفظ دینے کے لئے بنچوں کی تشکیل اور اس کی ہیئت کا تنہا اختیار چیف جسٹس کو نہیں دیا جاسکتا۔ (1) اس سے سپریم کورٹ کی غیر جانبداری اور چیف جسٹس پر عوام کا اعتماد مجروح ہوگا (2) غیر ضروری انفرادی طور پر ججوں پرجانبداری کے الزام لگیں گے (3)آپس میں بداعتمادی کے ساتھ ججوں میں دراڑیں پڑیں گی (4)بنچ پر ججوں کی آزادی محدود ہو جائے گی اگرججوں کو چیف جسٹس سے اختلاف رائے کی آزادی نہیں ہوگی تو آئندہ مقدمات کے لئے بنچوںمیں ان کی شمولیت کے امکانات مشکوک ہوجائیں گے حالانکہ بنچ کے فیصلے اجتماعی دانش اور ذہانت کے غماز ہوتے ہیں۔ بنچوں کی تشکیل، ججوں کی شمولیت اور مقدمات تفویض کرنے ایک جدید اور شفاف طرح جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاکر بھی اختیار اور بین الاقوامی سطح پر پریکٹس سے استفادہ بھی کیا جاسکتا ہے۔