مریم شہزاد
ایک وقت تھا جب کوشش کی جاتی تھی کہ بچوں کو شروع ہی سے اس طرح تعلیم دی جائے کہ وہ اپنے دماغ کا بھر پور استعمال کریں اور اپنی خداداد صلاحیتوں سے استفادہ کریں۔ اس کے لئے اسکول ہی میں بچے تشریحات، مرکزی خیال، خلاصے وغیرہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر لکھتے تھے ۔ اور ہر بچے کا کام نہ صرف دوسرے سے الگ ہوتا تھا بلکہ نئے جملے اور نئے پیرائے پڑھنے کو ملتے تھے لیکن پھررفتہ رفتہ بچوں خصوصاََ کالج کے طلبہ وطالبات کو آسانی کے نام پر تیار شدہ نوٹس اور دوسرا مواد ملنا شروع ہو گیا، جس سے ان کے ذہنوں نے سوچنا چھوڑ دیا۔
تیار شدہ نوٹس کی اہمیت بڑھتی چلی گئی اور جو طلباء لائبریریوں میں جاکر گھنٹوں مختلف کتابوں سے نوٹس تیار کرتے تھے،انہوں نےاپنی کاوشیں چھوڑ دیں اور سمجھ کر پڑھنے کے بجائے رٹا فیکیشن کا دور شروع ہوگیا ،پھر گوگل کا زمانہ آ گیا ،جس کے ذریعے ہر قسم کے سوالات کے جوابات اور نوٹس ایک کلک پر مل جاتے جو نوجوان لائبریری کی خاک چھانتے تھے ، تحقیق کرنے کے لیے کتابیں پڑھتے تھے اب ان کے لئے گوگل سے ہر قسم کا مواد حاصل کرنا آسان ہوگیا اور جو طلبا محنت کرنا بھی چاہ رہے ہوتے تھے وہ بھی یہ سوچ کر اس سے فائدہ اٹھانے لگے کہ جب سب کچھتیار مل جاتاہے تو ہم کیوں مغز ماری کریں ،یعنی گوگل نے لکھنے پڑھنے اور ہر قسم کی معلومات حاصل کرنے کی آسانیاں پیدا کردیں۔
نوجوانوں کے ذہنوں کو مفلوج کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جدید ترقی کےاس دور میں جہاں جدت نے فائدہ پہنچایا ہے، وہاں بے تحاشہ نقصان کا بھی ہوا۔ آج سے تین دہائی قبل عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دنیا جہاں کی معلومات و ترسیلات کا بنیادی ذریعہ اس کے پاس موبائل، انٹرنیٹ یا ڈیجیٹل میڈیا کی صورت میں ہوگا۔ لمحے بھر میں مشرق سے غرب میں رابطے استوار کرنا ممکن ہو گا-
اب ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں اور آتے ہیں ”مصنوعی ذہانت “ کی طرف، فی الوقت اس کا بہت شور ہے۔اس کا مطلب ہے خود کار ہونا، مشینوں کو یہ صلاحیت بخشنا کہ وہ خود سے انسانوں کی طرح سوچ سکیں، سمجھ سکیں اور فیصلے کر سکیں۔ یہ نئی ٹیکنالوجی بہت ہی حیرت انگیزہےجو انقلاب لا سکتی ہے۔ اسٹیکنالوجی کو زیادہ سے زیادہ شعبوں میں استعمال کر کے زندگی کو سہل بنایا جا رہا ہے۔یہ انسانی دماغ کو مسخر کر کے اس سے کئی گنا زیادہ سوچنے، سمجھنے اور پھر عمل کر دکھانے والی مشینز تیار کرنے کی سائنس ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسانی سوچ کو نقل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
اس سے بے شمار تعمیری کام لیے جارہے ہیں، خاص طور پر چیٹ جی پی ٹی، ڈیلی اور مائیکرو سافٹ ایزور سے بہت فوائد حاصل ہورہے ہیں یہ مشینیں اپنے آپ کو بہتر بنانے کے لیے نئے معلومات کو جمع کرتی ہیں بلا شبہ آج کل ہر طرف اس کی دھوم ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ فکر بھی بڑھتی جا رہی ہے کہ کہیں یہ انسانوں کے لیے مصیبت تو نہیں بن جائے گی؟کیا روزگار کے مواقع تو نہیں چھین لے گی؟ کہیں یہ انسانیت کے خاتمے کی طرف بڑھتے قدم تو نہیں؟ یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ کیا مستقبل میں یہ ٹیکنالوجی انسانی ذہانت کا متبادل ہو سکتی ہے؟ اس وقت اِن سوالوں کے حتمی جواب دینا ممکن نہیں لیکن امید کی جا رہی ہے کہ دیگر ٹیکنالوجیز کی طرح اِس سے زندگی میں آسانیاں تو پیدا ہوں گی لیکن اسے کنٹرول کرنا، اِس کے اخلاقی استعمال کو یقینی بنانا بھی بے حد ضروری ہو گا۔
گرچہ انسان کی ترقی اور ارتقاء شعور میں تیزی آئے گی۔ مشکل ترین کام مختصر وقت میں مکمل اور معیاری انداز میں ہو گا۔ ہر شعبہ اس کے ذریعے ترقی کرے گا۔ اسے صنعتی اور دوسرے شعبوں میں متعارف کرنے سے نہ صرف مصنوعات کی پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ نئی ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ مستقبل میں، ہم روزمرہ کی زندگی میں اس کا زیادہ سے زیادہ عمل دخل دیکھیں گے۔
مصنوعی ذہانت طلباء کی کارکردگی کے بارے میں قیمتی بصیرت فراہم کر سکتی ہے، لیکن یہ مؤثر تدریس کے لیے درکار انسانی وجدان اور تخلیقی صلاحیتوں کی جگہ نہیں لے سکتی ،ہرچند کہ اب یہ تحقیق مزید کئی نئے درجات تک جاپہنچی ہے لیکن کئی سوال ہیں جو ذہن میں آتے ہیں کہ کیایہ ویسا رویہ اپناسکتی ہے جیسا انسان اپناتا ہے کیونکہ مشین اور انسان کے مابین ایک بہت بڑا فرق احساسات اور محسوسات کا ہے۔ اس خلیج کو پار کرنے میں مشینوں کو بہت وقت لگے گا۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے مصنوعی جذبات پیدا کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ اس کا تعلق براہِ راست انسان کے دماغ اور حواس الخمسہ سے ہے۔
مزید برآں، یہ اس ڈیٹا تک محدود ہے، جس تک اسے رسائی حاصل ہے اور وہ اہم باریکیوں یا سیاق و سباق سے محروم ہو سکتی ہے، جنہیں ایک استاد سامنے لاسکتا ہے۔ ڈیجیٹل لرننگ سسٹم اپنے بے شمار فوائد کی وجہ سے تعلیم کا ایک اہم حصہ بن گیا ہے۔ تعلیم میں آئی سی ٹی کے رجحانات نے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو جدید ترین تعلیمی ٹیکنالوجی اپنانے پر آمادہ کیا ،تاکہ تدریس اور سیکھنے کے عمل کو بہتر بنایا جا سکے۔
اس کے بنانے میں انسانی دماغ کا ہی عمل دخل ہے، مگر ہر ایجاد کے جہاں سیکڑوں فوائد ہوتے ہیں وہیں اس کے نقصانات بھی ہوتے ہیں ۔ مصنوعی ذہانت نے بہت سے روز گار ہڑپ کرلیے ہیں۔ گمحققین کا کہنا ہے مصنوعی ذہانت ایسی شکل اختیار کررہی ہے، جس سےمستقبل میں اسے قابو کرنا مشکل ہو جائےگا۔مصنوعی ذہانت پر ضرورت سے زیادہ انحصار نوجوانوں کو کمزور اور آرام طلب کر سکتا ہے۔