کراچی ( رفیق مانگٹ) برطانوی اخبار’’ فنانشل ٹائمز‘‘ کے مطابق ترکی نے جی 20کے ہندوستان مشرق وسطی تجارتی راہداری منصوبے کا متبادل پیش کردیا۔17ارب ڈالر کا مجوزہ راستہ 1200؍ کلو میٹر ریل اور متوازی سڑک کے نیٹ ورک پر انحصار کریگا ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ ’مشرق سے مغرب تک تجارت کے لیے موزوں ترین راستہ ترکی سے گزرنا چاہیے۔
ترکی علاقائی شراکت داروں کے ساتھ متبادل راہداری کے بارے سنجیدگی سے بات کررہا ہے ، وہ ہندوستان مشرق وسطی کے مجوزہ راستے کے خلاف پیچھے ہٹ گیا ہے،چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش میں امریکہ اور یورپی یونین کا حمایت یافتہ کاریڈور ترکی کو مکمل طور پر نظرانداز کر دے گا۔
صدر رجب طیب نے جی 20 کے بعد کہا کہ ترکی کے بغیر کوئی راہداری نہیں ہو سکتی ،مشرق سے مغرب تک تجارت کے لیے سب سے موزوں راستہ ترکی سے گزرنا چاہیے۔
ترکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ماہرین کو شک تھا کہ کوریڈور میں جیوسٹریٹیجک خدشات ہیں۔
تجارتی راستے کا مطلب صرف تجارت نہیں ہوتی۔ یہ جیوسٹریٹیجک مقابلے کی عکاسی بھی ہے۔
انقرہ نے اس کے بجائے عراق ڈیولپمنٹ روڈ انیشی ایٹو کے نام سے ایک متبادل پر کام کیا ہے ،عراق، قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اس منصوبے پربات چیت جاری ہے جسے اگلے چند مہینوں میں بنایا جائے گا۔
بغداد حکومت کی طرف سے جاری کردہ خاکوں کے مطابق، 17 ارب ڈالر کا مجوزہ راستہ جنوبی عراق کی گرینڈ فاؤ بندرگاہ سے 10 عراقی صوبوں سے ہوتا ہوا ترکی تک سامان لے جائے گا۔
یہ منصوبہ 1200 کلومیٹر تیز رفتار ریل اور ایک متوازی سڑک کے نیٹ ورک پر انحصار کرے گا۔
اسکیم کے تین مراحل ہیں، جس کا پہلا مقصد 2028 میں اور آخری 2050 میں مکمل کرنا ہے۔
یوریشیا گروپ تھنک ٹینک کا کہناہے کہ ترکی کے پاس اس منصوبے کے مکمل دائرہ کار کو حاصل کرنے کے لیے فنانسنگ کی کمی ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ وہ مجوزہ انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے متحدہ عرب امارات اور قطر کی حمایت پر اعتماد کر رہا ہے۔
سیکیورٹی اور استحکام کے بارے میں ایسے مسائل بھی ہیں جو تعمیرات اور منصوبے کی طویل مدتی فزیبلٹی دونوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں ۔عراق بدعنوانی، زوال پذیر انفراسٹرکچر، کمزور حکومت اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پریشان ہے۔
یہ بھی واضح نہیں ہے کہ عراق اس منصوبے کی مالی معاونت کیسے کرے گا۔تجزیہ کاروں اور مغربی سفارت کاروں نے یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ مجوزہ G20 کوریڈور کی تیاری میں بھی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ انقرہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا حامی ہے ۔
کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کی تحقیق کے مطابق، بیجنگ نے بیلٹ اینڈ روڈ کے ذریعے ترکی میں تقریباً 4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، جو کل کا صرف 1عشاریہ تین فیصد ہے۔