• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کے پاس سپریم کورٹ کی خواہش پوری کرنے کا کوئی طریقہ نہیں

اسلام آباد (انصار عباسی) حکومت کے پاس پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پاک پی ڈبلیو ڈی) کے یومیہ اجرت (ڈیلی ویجز) پر کام کرنے والے 81؍ ملازمین کو پکا کرنے کیلئے سپریم کورٹ کی حالیہ درخواست کو منظور کرنے کیلئے کوئی قانون یا پالیسی دستیاب نہیں جس کے تحت سپریم کورٹ کے ریسٹ ہاؤسز، لاجز اور رجسٹری کی دیکھ بھال پر مامور ان ملازمین کو پکا کیا جا سکے۔ 

باخبر سرکاری ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ مروجہ قوانین، قواعد یا پالیسیوں میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس پر عمل کرتے ہوئے ان ملازمین کو پکا کیا جا سکے۔ 

ذرائع نے بتایا ہے کہ سپریم کورٹ کی درخواست پر ہاؤسنگ اینڈ ورکس ڈویژن کی جانب سے پیش کی گئی حالیہ سمری سے قبل اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو آگاہ کیا تھا کہ ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے جس کے تحت یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی خدمات کو ریگولر کیا جاسکے۔ 

کہا جاتا ہے کہ کنٹریکٹ ملازمین کی ریگولرائزیشن پالیسی کے تحت ممکن ہے لیکن وہ بھی جہاں کنٹریکٹ پر تعینات ہونے والا ان عہدوں کی تمام اہلیت کو پورا کرتا ہے جن پر عمل کرتے ہوئے اسے ریگولر کیا جا رہا ہے۔ 

کہا جاتا ہے کہ یومیہ اجرت کو کسی بھی پالیسی، قانون یا قاعدے کے تحت ریگولرائز نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل، سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے حکومت سے خواہش ظاہر کی تھی کہ قواعد و ضوابط اور پالیسی میں نرمی کرتے ہوئے اور صرف ایک مرتبہ کیلئے پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کے ان درجنوں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ملازمین کو پکا (ریگولر) کیا جائے جو سپریم کورٹ کے ریسٹ ہاؤسز، لاجز اور رجسٹری میں مینٹی ننس کا کام کرتے ہیں۔

 سرکاری دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ 22 اگست 2023 کو رجسٹرار سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ میں ہونے والی ایک میٹنگ شریک میں سرکاری افسران کو بتایا کہ چیف جسٹس نے خواہش کی ہے کہ مذکورہ ملازمین کو ریگولر کیا جائے اور اس کیلئے پی ڈبلیو ڈی کے قواعد و ضوابط میں نرمی کرتے ہوئے ریگولرائزیشن کا عمل شروع کرنا چاہئے اور نئی بھرتیوں کی بجائے مذکورہ ملازمین کو ترجیح دی جائے۔ چند روز قبل، 11 ستمبر کو، وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے فوری طور پر ’’وزیراعظم کیلئے سمری‘‘ ارسال کی جس میں اوپن اشتہار، اہلیت، عمر کی بالائی حد اور ’’منتخب لاٹ‘‘ کو پکا کرنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سرپلس پول سے این او سی کی شرط میں نرمی کی درخواست کی گئی۔ سمری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے توسط سے وزیراعظم آفس بھیجی گئی اور ذرائع کہتے ہیں کہ اور ڈویژن نے سپریم کورٹ رجسٹرار کو اس معاملے پر قانونی پوزیشن سے آگاہ کر دیا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس معاملے کو آگے بڑھائیں گے یا نہیں۔ اب سپریم کورٹ کے رجسٹرار بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔ 

اس نمائندے نے نئے رجسٹرار سے رابطے کی کوشش کی لیکن وہ دستیاب نہیں تھے۔ ان کیلئے پیغام بھی چھوڑا کہ بعد میں رابطہ کرلیں لیکن اس معاملے پر سپریم کورٹ کے موقف کیلئے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔ 

وزیر اعظم کیلئے 11 ستمبر کو سیکریٹری ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی جانب سے بھیجی گئی سمری میں لکھا ہے کہ ججز انکلیو اسلام آباد، ججز لاجز مری، سپریم کورٹ برانچ رجسٹری پشاور اور جوڈیشل لاجز پشاور میں دیکھ بھال کے انتظامات پی ڈبلیو ڈی کے پاس ہیں اور ان مقامات پر دیکھ بھال اور مینٹی ننس کے کام پر یومیہ اجرت پر رکھے گئے 81؍ ملازمین کام کر رہے ہیں۔

؍22 اگست کو سپریم کورٹ میں ہونے والے اجلاس کے دوران رجسٹرار سپریم کورٹ نے درخواست کی ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کی خواہش ہے کہ پاک پی ڈبلیو ڈی مذکورہ سیٹ اپ میں پہلے سے کام کرنے والے ورک چارج/ دستے/ یومیہ اجرت والے ملازمین کو پکا کرنے کا عمل شروع کر سکتا ہے اور ایسے ملازمین کو نئی بھرتیوں میں ترجیح دینے پر غور کیا جا سکتا ہے۔

اہم خبریں سے مزید