کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان علینہ فاروق شیخ کے پہلے سوال برادر اسلامی ممالک کی اسرائیل سے متعلق پالیسی کے بعد پاکستان کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ اگر سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو اس کا سعودی عرب کو فائدہ ہوگا، عوامی رد عمل کا خوف ہے کہ ہم نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ورنہ ہم نے اب تک اسرائیل سے قرضہ مانگ لیا ہوتا۔
تجزیہ کار بینظیر شاہ نے کہا کہ یہ پیش رفت اچانک نہیں ہوئی ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل اپنے تعلقات بہتر کریں۔ 2020ء سے یہ معاملہ شروع ہواجب یو اے ای اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کئے۔ اس وقت بھی کہا جارہا تھا کہ سعودی عرب سے اجازت لیے بغیر دونوں ممالک ایسا نہیں کرسکتے ۔اس کے فوراً بعد ہم نے دیکھا کہ سعودی عرب نے اسرائیل کے لیے فضائی حدود بھی کھول دیے جو کہ بہت بڑی پیش رفت تھی کیوں کہ دونوں ممالک کے درمیان رسمی تعلقات قائم نہیں تھے۔اگر سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو اس سے سعودی عرب کو فائدہ ہوگا۔ سعودی عرب امریکا سے دو تین چیزیں چاہتا ہے ایک تو وہ نیوکلیئر پاور بننا چاہتے ہیں۔ دوسرا وہ چاہتے ہیں کہ امریکا ان کے ساتھ سیکیورٹی ڈیل کرے جس قسم کی سیکیورٹی ڈیل امریکا نے ساؤتھ کوریا اور جاپان کے ساتھ کی ہوئی ہے۔
پاکستان کو اس ساری پیش رفت کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات نہیں بنانے چاہئیں ۔اگر کوئی اس طرح کا اتحاد بنتا ہے جو ایران اور اسرائیل کے خلاف ہے تو ہم اس میں بہت مشکل میں پھنس جائیں گے۔اگر سعودی عرب اوراسرائیل کے درمیان کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو پاکستان پر بہت زیادہ دباؤ پڑنے والا ہے کہ وہ بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرے۔
تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ یہ دور اب دوستی دشمنی والا نہیں رہا یہ جذبات والا دور اور برادر اسلامی ملک والا دور نہیں رہا۔ یہ مفادات کی جنگ ہے اور مفادات ہوں توولی عہد سعودی عرب چار دن انڈیا میں رہتے ہیں اور چند گھنٹے کے لیے پاکستان میں نہیں آتے۔ دنیا بدل چکی ہے اور ہمارا کوئی برادر اسلامی ملک نہیں ہے اگر کوئی ہمارا برادر اسلامی ملک ہے تو وہ بھی ہم سے تنگ ہے کہ ہم روز ان کے سامنے کشکول پھیلاتے ہیں۔ یہ عوامی رد عمل کا خوف ہے کہ ہم نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ورنہ ہم نے اب تک اسرائیل سے قرضہ مانگ لیا ہوتا۔ سعودی عرب کے جب باقاعدہ تعلقات ہوگئے اس کے بعد ہمارے ہاں بھی صورتحال بدلنا شروع ہوجائے گی اور ہمارے تعلقات بھی ایک دن قائم ہوجائیں گے۔
تجزیہ کارحفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ سعودی عرب نہیں کرے گا لیکن سعودی عرب پر پابندیاں ہیں۔ ہماری عوام اس کو برداشت نہیں کریں گے۔
تجزیہ کارمظہر عباس نے کہا کہ ہم سعودی عرب اور ایران کو ایک ساتھ نہیں بٹھا سکے مگر چین نے بٹھا دیا ۔اس سے امریکی بلاک پریشان ہوا اور انہوں نے اس کا ایک کاؤنٹر نکالا۔ ہمیں اسلامی سربراہی کانفرنس کا مطالبہ کرنا چاہیے۔پاکستان کی اس میں پوزیشن یہ ہونی چاہیے کہ سارے ممالک بتائیں کہ فلسطین کا مسئلہ کیسے حل ہوگا۔ دوسرا سوال کے اثر و رسوخ کے استعمال سے کیسز میں بگاڑ کو روکنے کے لیے کیا اقدامات ہونا چاہئیں؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاربینظیر شاہ نے کہا کہ فاطمہ قتل کیس میں دو چیزیں ہیں ۔ جب سوشل میڈیا اورمیڈیا پر شور مچتا ہے تو تب ہی ادارے حرکت میں آتے ہیں۔اگر سی سی ٹی وی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل نہ ہوتی میڈیا پر نہ آتی تو کیا ہمیں پتہ چلتا کہ حقائق کیا ہیں۔اس کیس میں ہر قدم پر پولیس نے کوشش کی ہے کہ اس کیس کو دبایا جائے ۔ابتداء میں ایف آئی آر میں پیر فیاض شاہ کا نام ہی شامل نہیں تھا۔