کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کےساتھ‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما ملک احمد خان نے کہا ہے کہ شہباز شریف کی لندن واپسی قانونی امور پر مشاورت سے متعلق تھی، سپریم کورٹ کا نیب ترامیم سے متعلق فیصلہ پاکستان کے خلاف ہے،نمائندہ جیو نیوز اویس یوسف زئی نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو بہت سارے کیسوں میں اسلام آباد ہائیکورٹ سے نہ صرف ریلیف ملا ہے بلکہ غیرمعمولی ریلیف بھی ملا ہے.
نمائندہ خصوصی جیو نیوز اعزاز سید نے کہا کہ عمران خان کی ضمانت ہوجائے تب بھی ان کی رہائی ممکن نہیں ہے، عمران خان آئندہ عام انتخابات سے پہلے کسی صورت جیل سے باہر آتے نظر نہیں آرہے، عمران خان ایک لمبے عرصے کیلئے جیل میں ہیں، انتخابات کے کچھ عرصہ بعد شاید انہیں رہا کیا جائے گا۔ن لیگ کے رہنما ملک احمد خان نے کہا کہ ملک کو اس وقت لیڈرشپ کی ضرورت ہے، پورا پاکستان نواز شریف کی واپسی کا منتظر ہے
مسلم لیگ ن کے ساتھ پیغام رسانی والا کوئی معاملہ نہیں ہے، شہباز شریف کی لندن واپسی قانونی امور پر مشاورت سے متعلق تھی، سپریم کورٹ کا نیب ترامیم سے متعلق فیصلہ پاکستان کے خلاف ہے، نواز شریف پر ایسا کوئی کیس نہیں جو اس فیصلے کے نتیجے میں دوبارہ کھلے، سیاسی انتقام کے لیے بنائے گئے مقدمات ہمیشہ اپنی موت آپ مرتے ہیں۔
ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی واپسی کیلئے 21 اکتوبر کی تاریخ حتمی ہے، 2018ء کے الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد جو کچھ ہوا وہ جمہوریت کیلئے اچھا نہیں رہا، اس وقت عوام کی تکلیف کا مداوا سب سے زیادہ ضروری ہے،نواز شریف سے لوگوں کی توقعات وابستہ ہیں، توسیع کا معاملہ ووٹ سے طے کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کیا تھا، آرمی چیف کی توسیع کا معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے تھا، ایک پارٹی مخالفت میں ووٹ ڈالتی تو کیا تاثر جاتا، کیا پاکستان کی افواج ایک پولرائزڈ آرمی چیف کا تصور کرسکتی ہیں؟۔
ملک احمد خان نے کہا کہ جنرل باجوہ کے احتساب سے متعلق فیصلہ پارٹی قیادت کرے گی، میں مشاہد حسین سید کے بیان سے اختلاف کرتا ہوں، عمران خان کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد آئینی اور جمہوری عمل تھا، تحریک انصاف کی حکومت اتحادیوں کے نکلنے سے گری تو اس میں کہاں جنرل باجوہ، کہاں کسی کی حمایت یا کسی کی لڑائی کی بات آتی ہے۔
نمائندہ جیو نیوز اویس یوسف زئی نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو بہت سارے کیسوں میں اسلام آباد ہائیکورٹ سے نہ صرف ریلیف ملا ہے بلکہ غیرمعمولی ریلیف بھی ملا ہے، خاتون ایڈیشنل سیشن جج کو دھمکی کے معاملہ پر عمران خان کے وارنٹ جاری ہوئے تو انہیں معطل کیا گیا تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ہی جج دھمکی کیس میں اتوار کو چھٹی والے روز عدالت لگا کر چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت میں پیش ہوئے بغیر حفاظتی ضمانت دی تھی۔
نمائندہ خصوصی جیو نیوز اعزاز سید نے کہا کہ عمران خان کی ضمانت ہوجائے تب بھی ان کی رہائی ممکن نہیں ہے، عمران خان آئندہ عام انتخابات سے پہلے کسی صورت جیل سے باہر آتے نظر نہیں آرہے، عمران خان ایک لمبے عرصے کیلئے جیل میں ہیں، انتخابات کے کچھ عرصہ بعد شاید انہیں رہا کیا جائے گا، عمران خان کو ضمانت مل جاتی ہے تو نیب کا یکم مئی کا وارنٹ ابھی بھی برقرار ہے، عمران خان کیخلاف ٹیلی تھون کا کیس بھی تیار کرلیا گیا ہے اس میں بھی ان کی گرفتاری ہوسکتی ہے، پی ٹی آئی حکومت نے ٹیلی تھون میں 4.32 ارب روپے اکٹھے کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔