اسلام آباد (عمر چیمہ) سپریم کورٹ آف پاکستان کو چار سال سے زائد عرصہ قبل معلومات کی فراہمی کیلئے بھیجی گئی ایک درخواست کے حوالے سے دائر کردہ اپیل چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کیلئے مقرر کر دی ہے۔ یہ اپیل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف لینے سے چند ہفتے قبل دائر کی گئی تھی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ بدھ کو کیس کی سماعت کرے گا جس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔ یہ اپیل چیف جسٹس کی جانب سے عہدہ سنبھالنے کے بعد سماعت کیلئے مقرر کر دی گئی تھی اور اب اس کی سماعت بدھ کو ہونے جا رہی ہے۔ یہ کیس اس بات کا تعین کرنے میں اہم ثابت ہوگا کہ معلومات تک رسائی کا حق قانون 2017ء جسے عموماً آر ٹی آئی کہا جاتا ہے، عدالت عظمیٰ پر لاگو ہوتا ہے یا نہیں۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے معلومات کی فراہمی کی درخواست اس بنیاد پر مسترد کر دی تھی کہ سپریم کورٹ پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا حالانکہ اس میں ان اداروں کے درمیان ’’وفاقی قانون کے تحت کسی بھی عدالت، ٹربیونل، کمیشن یا بورڈ‘‘ کا ذکر ہے جن سے معلومات طلب کی جا سکتی ہیں۔ پاکستان انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) نے رجسٹرار کے دلائل کے خلاف فیصلہ سنایا تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے پی آئی سی کا فیصلہ معطل کردیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ اسی طرح کی معلومات کی فراہمی کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھیجی گئی تھی اور اس کا جواب بھی نہیں دیا گیا تھا۔ یہ معاملہ اپریل 2019 میں اس وقت شروع ہوا جب مختار احمد علی نے معلومات کی فراہمی کے قانون کے تحت سپریم کورٹ کے ملازمین اور وہاں خالی اسامیوں کو پُر کرنے کیلئے کی جانے والی بھرتیوں کے متعلق معلومات طلب کرنے کی درخواست دائر کی۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے عملے کی منظور شدہ تعداد، خالی آسامیوں کی تعداد، ریگولر اسٹاف اور یومیہ اجرت پر رکھے گئے ملازمین کے متعلق سوالات کیے تھے۔ درخواست گزار نے مزید پوچھا تھا کہ کیا خواتین، معذوروں، خواجہ سراؤں کا کوئی کوٹہ ہے جیسا کہ دیگر عوامی اداروں میں ہے اور ان میں سے کتنی اسامیاں پُر کی جا چکی ہیں۔ یہ کیس ایک ایسے وقت میں سماعت کیلئے پیش کیا گیا ہے جب فیڈرل پبلک سروس کمیشن آف پاکستان خواتین، منارٹیز اور مختلف صوبوں کے کوٹے پر خالی اسامیوں کو پُر کرنے کیلئے سی ایس ایس کا خصوصی امتحان منعقد کرنے جا رہا ہے۔ یہ امتحان سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دیے گئے منارٹیز کمیشن کی جانب سے کیے گئے اقدامات کی روشنی میں کیا جا رہا ہے۔ اس کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مرکز اور صوبوں میں اقلیتی کوٹے کی 33؍ ہزار سے زائد اسامیاں خالی ہیں۔ جہاں تک پنجاب انفارمیشن کمیشن کے سابق کمشنر مختار احمد علی کا معاملہ ہے تو وہ سپریم کورٹ سے مطلوبہ تفصیلات حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس معاملے کو ساڑھے چار سال گزر چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے پہلے اس بنیاد پر مختار احمد کی درخواست مسترد کر دی کہ معلومات کی فراہمی کا قانون سپریم کورٹ پر لاگو نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کا کہنا تھا کہ آر ٹی آئی قانون میں لکھا ہے کہ ’’وفاقی قانون کے تحت کسی بھی عدالت، ٹربیونل، کمیشن یا بورڈ‘‘ پر آر ٹی آئی قانون لاگو ہوتا ہے تاہم یہ قانون اسلئے سپریم کورٹ پر لاگو نہیں ہوتا کہ سپریم کورٹ آئینی ادارہ ہے نہ کہ کسی وفاقی قانون کی وجہ سے تخلیق ہونے والا ادارہ۔