کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان علینہ فاروق شیخ کےسوال کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں آنے والی شکایت کو سودے بازی کے لئے استعمال کرنے کے الزام پر عطا بندیال کے خلاف تحقیقات کس طرح ہونی چاہئے؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ جب تک ان جج صاحبان،سابق جرنیلوں کو سزا نہیں ملتی ملک آگے نہیں بڑھ سکتا،پاکستان میں کبھی بھی نہ ججوں کا احتساب ہوا ہے اور نہ ہی جرنیلوں کا احتساب ہوا۔تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ تین ہفتوں کے بعد یہ اسٹوری سامنے آئی اگر اس وقت آجاتی تو یقیناً صورتحال مختلف ہوتی ۔ چیف جسٹس صاحب بھی موجود ہوتے اور جج صاحب بھی موجود ہوتے۔اس وقت ہوتی تو اس کا ایک اور رنگ تھااب ہوگی تو اور رنگ ہے۔اگر یہ معاملہ من و عن ویسے ہی ہے جیسا کہ عبدالقیوم صدیقی نے اپنی اسٹوری میں لکھا ہے تو اخلاقی طور پر تو بلا شبہ یہ بری حرکت ہے۔یہاں اخلاقیات کا قحط ہے اخلاقیات بنیادوں میں ہی نہیں ہے۔اس وقت کے چیف جسٹس صاحب نے اپنے جج کو فون کیا کہ شکایتوں کا وٹہ سٹہ کر لیتے ہیں ۔آپ اپنے شکایت ختم کردیں میں اپنی شکایت جو میری طرف آئی ہے وہ میں ختم کردیتا ہوں ایک چیف جسٹس صاحب کو یقیناً یہ زیب نہیں دیتا۔اگر یہ سودے بازی ثابت ہوجاتی ہے تو کیا قانونی طور پر اس پر کوئی گرفت کی جاسکتی ہے کہ تحقیقات کی جائیں اگر تحقیقات کی جائیں تو قانون اس کے حوالے سے کیا کہتا ہے۔تجزیہ کارریما عمر نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے جو رولز ہیں اس سے صاف نظر آتا ہے کہ یہ صرف سٹنگ ججز پر اپلائی کرتی ہے ۔یہ صرف غیر اخلاقی بات نہیں اپنے اختیارات کا بہت غلط استعمال کرنا ہے یہ مس کنڈکٹ نظر آتا ہے۔جب وہ سٹنگ جج تھے تو یہ معاملہ کیوں نہیں اٹھایا گیا۔وہ اگر اس وقت ریٹائرڈ نہ ہوتے تو سپریم جوڈیشل کونسل کیا کرتی ۔کچھ بنیادی چیزیں ہمیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کی چیزیں دوبارہ نہ ہوں ۔ تجزیہ کاراعزاز سید نے کہا کہ پاکستان آج جس مقام پر پہنچا ہے جس دلدل میں پھنسا ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی نہ ججوں کا احتساب ہوا ہے اور نہ ہی جرنیلوں کا احتساب ہوا ہے۔آپ ان لوگوں کو سزا دیں جنہوں نے غلط کام کئے ہیں سٹنگ لوگوں کے خلاف تو آپ کارروائی نہیں کرسکتے۔ آپ کو کسی ایک کومثال بنانا پڑے گاکسی ایک جگہ سے یہ کام شروع کرنا پڑے گا۔ جب تک ان جج صاحبان،سابق جرنیلوں کو سزا نہیں ملتی یہ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ان میں صحافی بھی شامل ہیں ان کو بھی سزا ملنی چاہئے لیکن صحافیوں کا احتساب ہوتا رہتا ہے ۔کبھی عمران ریاض کی صورت میں صحافی کو اٹھا لیا جاتا ہے کبھی حامد میر کی صورت میں اس کو گولیاں ماری جاتی ہیں ۔اس کی سب سے بڑی ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے۔آئین پاکستان کسی پر پابندی عائد نہیں کرتااحتساب کا کام شروع ہونا چاہئے۔ تجزیہ کارعبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ سابق ریٹائرڈ ججزان کے احتساب کے حوالے سے ویمن ایکشن فورم کی پٹیشن سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئی تھی ۔جس پر دو جج صاحبان نے کچھ عرصہ پہلے ایک فیصلہ دیا کہ ریٹائرڈ ججز کاسپریم جوڈیشل کونسل میں احتساب نہیں ہوسکتا۔جب ہم آئین و قانون کو دیکھتے ہیں ہم روزانہ عدالتوں کے اندر برابری کا دیکھتے ہیں۔ہم کہتے ہیں کہ احتساب کے سامنے سب برابر ہیں جس کے پاس اختیار ہے اس اختیار کے استعمال کے حوالے سے وہ جواب دہ ہے۔اگر منتخب وزیراعظم کو اس کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعداس کے اختیارات کے استعمال کے حوالے سے مقدمات ہوسکتے ہیں۔ٹھیک ہے ان کے پاس تحفظ ہے اگر اس طرح کی بات آتی ہے تو پھر جج کیوں اپنے ان اختیارات کے حوالے سے جوابدہ نہیں ہے یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔سپریم جوڈیشل کونسل اپنے رولز بناتی ہے سپریم جوڈیشل کونسل بذات خود نوٹس لے سکتی ہے ۔ کسی شہری کی درخواست پر بھی سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی کرسکتی ہے اس کے علاوہ صدر مملکت کے پاس بھی اختیار موجود ہے۔ہمارے ذرائع کے مطابق وہ رائے جسٹس سردار طارق مسعود نے سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے بھجوادی ہے اب یہ سپریم جوڈیشل کونسل دیکھے گی کہ اس رائے کے اندریہ معاملہ مزید پروسیڈ ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ہے۔ہمار ے ذرائع کے مطابق شاید اکتوبر کے دوسرے ہفتے کے اندراس حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کی میٹنگ ہم دیکھ سکیں۔