ڈاکٹر ظفر فاروقی
ہمارے معاشرے میں درس و تدریس کو بطور پیشہ اپنانا بہت مشکل مرحلہ ہے، کیونکہ اکثر اس میں وہی لوگ میں آئے ،جن کو شعبہ کے انتخاب میں مشکل پیش آئی یا سائنس میں کم نمبر آئے تو انہوں نے بی اے ، بی ایڈ میں دا خلہ لے لیا ۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جن کو درس وتدریس کا شوق تھا۔ خواتین اس پیشے سے زیادہ منسلک ہیں کیوں کہ یہ ان کے لیے ایک معتبر پیشہ سمجھا جاتا ہے۔
اس وقت ہمارے معاشرے میں درس و تدریس کا شعبہ بہت تنزلی کا شکارہے۔ بیش تردیہی علاقوں میں اسکول نہیں اور اگر اسکول ہیں بھی تو اساتذہ نہیں، ان کی صرف کاغذی موجودگی ظاہر ہوتی ہے اور وہ گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں اور اسکولوں میں گائیں، بھینسیں بندھی ہوئی ہیں۔
مجموعی طور پر صورت ِ حال گھمبیر و ناگفتبہ ہے۔ ایک افسوناک پہلو یہ بھی ہے کے بجٹ میں تعلیم کے لیے بہت کم رقم مختص کی جاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان تعلیم پر نہ خرچ کرنے والے ممالک میں 164نمبر پر ہے۔ پاکستان کی صرف 6جامعات دنیا بھر کی 1000جامعات میں شامل ہیں تو ذرا سوچیئے کہ ہم دنیا بھر میں تعلیمی معیار میں کہاں کھڑے ہیں، جبکہ اچھی طرح معلوم ہے کہ معاشرہ کا وجود صرف اور صرف تعلیمی ترقی میں پنہاں ہے۔ تعلیم انسان میں فکری شعور اور آگاہی کی جانب سفر مسلسل ہے، مگر افسوس کہ وہ فکر و شعور اور آگاہی ہمارے معاشرے میں نظر نہیں آتی۔ معاشرتی ناہمواری بڑھتی جارہی ہے۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہمارے یہاں انٹرآرٹس میں مضامین کی کمی ہے علم شہریت، نرسنگ، عمرانیات ، شماریات، تعلیم، بریل، جغرافیہ، معاشیات، خانہ داری، تاریخ اسلام، معاشیات، تاریخ عام، اسلامک اسٹڈیز، نفسیات اُردو اختیاری، سنذھی اختیاری، انگریزی اختیاری، عزبی، فارسی، ریاضی، کمپیوٹر سائنس، فنون لطیفہ، صحت وجسمانی تعلیم، منطق اور لائبریری سائنس جیسے مضامین موجود ہیں اور بارہویں تک کے طلبا و طالبات انہیں پڑھ کر آگے جاکر چار سالہ بی ایس پروگرام میں مزید پڑھتے ہیں، مگر سوال وہی ہے کہ اگر اتنے مضامین موجود ہیں تو پھر معاشرے میں فکری، آگاہی اور سماجی شعورکی کمی کیوں نظر آرہی ہے۔ دراصل اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ طلبا جدیدتعلیم سے نا آشنا ہیں۔
عمر رسیدہ اساتذہ کے شعبے سے منسلک ہیں اُن کا طریقہ تعلیم وہی پرانے طرز پر ہے ۔ درسی کتب میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے میں نہیں آتی۔ طلبا کو جدید علوم سے آشنا کرنا بہت ضروری ہے، جس کے لیے تعلیمی نظام کی درستگی توجہ طلب ہے۔ جب ہم میٹرک کر رہے تھے تو شام میں اس اسکول کے ہی اساتذہ کرام کسی معاوضے کے بغیرپڑھائی میں مدد کردیتے تھے۔ ان کا مطمع نظر صرف اور صرف درس و تدریس تھا۔ اپنے طلبا میں اپنے علم سے شعور و آگہی کی روشنی پھیلانا تھا ، تعلیمی مدارج میں آسانیاں فراہم کرنا تھا ،مگر آج کے دور میں طلبا ٹیوشن سینٹر کی جانب رواں دواں ہیں جوکہ افسوسناک صورتحال ہے۔
یعنی تعلیمی اداروں میں کیا تعلیم نہیں دی جا رہی؟ کیا ان سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذ ہ کرام، طلبا و طالبات کو درس و تدریس نہیں دے رہے ؟ ان تمام وجوہات کے بنا پرہم نوجوانوں کو درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہونے کی ترغیب دیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ درس و تدریس کا شعبہ اپنائیں گے تواس میں موجود خرابیوں کو دور کر کے دورِ جدید کی مناسبت سے تعلیم و ترویج میں تبدیلی اور ترقی لا سکتے ہیں۔ اس وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اساتذہ کی بہت ضرورت ہے۔ اس شعبے میں آکر وہ اپنی ذاتی شعور کو بھی اجاگر کر پائیں گے۔
کہاجاتا ہے کہ درس و تدریس کے شعبے میں تنخواہیں کم ہیں۔ موجودہ معاشی و مہنگائی کے اعتبار سے یقینا کم ہیں۔ جب ہی تو نوجوان طبقہ اس شعبے سے دور ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بےروزگاری سے پریشان ہیں ، کیا وہ درس و تدریس سے منسلک ہوکر آنے والی نسل کا مستقبل روشن نہیں کرسکتے ، دراصل آج کل وائٹ کالر ملازمت کے سب متمنی ہیں۔ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ آسائش حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لڑکیاں پھر بھی اس شعبے کا رخ کر لیتی ہیں لیکن لڑکے اس جانب آنے سے کتراتے ہیں۔
کچھ نوجوان اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے پرائیوٹ اسکولوں میں اس شعبے سے وقتی طور پر منسلک تو ہوجاتے ہیں لیکن مستقبل کا خواب کچھ اور ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت وقت کو بھی سوچنا ہوگا۔ کیونکہ تعلیم کے فروغ میں صرف اور صرف حکومتیں عمل درآمد کرتی ہیں۔ اقوام عالم میں جتنی بھی اقوام نے ترقی کی ہے، وہ صرف اور صرف حکومتی سطح پر تعلیم پر زور کی بناء پر ہوئی ہے۔
چائنا، ملائشیا، تائیوان، روس، انڈونیشیا، ساؤتھ کوریا، ترکی، انڈیا، نیوزی لینڈ، سنگاپور میں اساتذہ کرام کو انتہائی تکریم اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہےاور ان کو سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں گلوبل سروے انڈیکس 2022ء کے مطابق امریکا، یونائٹیڈ کنگڈم، جرمنی، کینیڈا، فرانس، جاپان اور سویڈن بالترتیب آتے ہیں۔ تو ذرا سوچیےکہ ان ممالک میں درس و تدریس سے جڑے اساتذہ کرام کتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ، ہنر مند، بہترین دانشور، اسکالرز ہیں، انہوں نے تحقیق کے شعبے سے جڑے رہ کر ملک و قوم کوکس قدر قابل طلبا دیئے جو اپنے ملک کی ترقی کے لیے کام کررہے ہیں۔
ہمارے نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ وہ درس وتدریس کے شعبے کو اپنالیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ اس شعبے میں روزگار فراہم کرنے میں ان سے تعاون کریں۔ جب وہ خود معلم بن جائیں گے تو فکر و شعور کی مزید آگہی ہوگی ، ان کا کردار بلند ہوگا، مزید تحقیق و جستجو کی لگن بڑھے گی، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر تحقیق کا کام سرانجام دےسکیں گے۔ اس وقت نہ صرف سائنس میں بلکہ دیگر سماجی، آرٹس کے مضامین میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے، اس خلاء کو نوجوان ہی پرکر سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں حکومت وقت کی مالی معاونت اور سرپرستی کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جدید تحقیق کے حصول کے بعد درس و تدریس کے شعبے میں بہتری آئے گی۔ نوجوان اساتذہ کی تحقیقی شعور میں اضافہ ان کے پیشہ وارانہ امور کو بھی بہتر طریقے سے سرانجام دینے میں ممدو ومعاون ثابت ہوگا۔ جب انہیں سہولیات فراہم کیں جائیں گی تو نوجوانوں میں خود بخود جوش اور ولولہ بڑھتا چلا جائے گا۔ علم کی شمع جلتی جائے گی اور بہترین طلباء و طالبات کالجز سے نکل کر اور جامعات سے نکل کر ملک و قوم کی صحیح معنوں میں خدمت انجام دے سکیں گے۔
کالجز اور جامعات میں اساتذہ تو ہیں، مگر وہ اپنا مقررہ وقت پورا کرچکے ہیں اور درس وتدریس کے وہی پرانے طریقے اپنائے ہوئے جس سے طلبا مطمئن نہیں۔ وہ ایک لگے بندھے ڈگر پر چل رہے ہیں۔ اس وقت محنتی اور نوجوان اساتذہ کی ضروت ہے تو پھر سوچئے کہ کس قدر ہونہار، باشعور، شاگرد ان اداروں سے نکلیں گےجب ان کی تربیت محنتی نوجوان اساتذہ کرام کے ہاتھوں ہوئی ہوگی۔
محنتی نوجوان آئیں اس درس و تدریس کے شعبے کا حصہ بن جائیں اور نااہل افراد کو نکال باہر کردیں جو گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں صرف اور صرف اہلیت و قابلیت و کارکردگی کی بنیاد پر آئیں ایسا ماحول بنائیں جس میں محنت کی پذیرائی ہو۔ آپ کے ہنر و قابلیت کو پذیرائی ملے۔ ان کی تنخواہوں میں حکومت اضافہ کرے ۔بہترین تعلیمی ماحول صرف اور صرف پرجوش قابل، ہنرمند نوجوان اساتذہ ہی استوارکرسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے توہم یہ کہہ رہے ہیں کہ نوجوان درس و تدریس کے شعبے میں آئیں۔
اس سلسلے میں حکومت وقت کوبھی چند باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔ جیساکہ آج کل مضمون کے اسپیشلسٹ اور لیکچرار کی بھرتیاں ہو رہی ہیں اس سلسلے میں ملک بھر میں ایک ڈیٹا بینک بنا دیا جائے۔ جس میں پورے ملک سے BS کرنے والے تمام نوجوانوں کا ڈیٹا موجود ہو اور ان کو مضامین کے حساب سے علیحدہ لسٹوں میں تقسیم کردی جائے اور پھر NTS ٹیسٹ کے مارکس بھی ان کے پروفائل میں شامل کردیں اور پھر جس صوبے کو جس مضامین میں اساتذہ کرام / لیکچرار/ سبجیکٹ اسپیشلسٹ چاہیں وہ اس ڈیٹا بینک سے حاصل کرلیں۔
سچے جذبے کے ساتھ آپ تعلیمی پیشہ اپنائیں ۔تعلیمی شعبہ سے جڑ کر آپ اپنی تحقیقی صلاحیت، ذہنی وسعت، ذہنی صلاحیت کی وسعت میں بھی اضافے کرسکیں گے۔ نوجوان، آنے والے نسلوں کی تعلیم و تربیت میں اپنا کردارادا کریں جس کے بنا پر ہمارا تعلیمی نظام بھی بہتری کی طرف گامزن ہوگا۔ تعلیم کے فروغ میں مدد ملے گی۔ تعلیم کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا اور ہمارا ملک بھی تعلیم یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوسکے گا۔