• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قصہ تعمیرِ بیت المقدس اور حضرت سلیمانؑ کی وفات کا

تختِ سلیمانی ؑ، القدس کی فضائوں میں:شہر القدس کی ایک پُرنور سُہانی صبح کا ذکر ہے، اُفق کے دامن سے جھانکتی آفتاب کی رُوپہلی کِرنوں نے نئے نویلے شہر کے پاکیزہ حُسن کو دوبالا کیا ہوا ہے۔ لوہے کی مضبوط زنجیروں سے جکڑے شیاطین اور خود سَر جنّات تَن دہی سے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ قریب ہی ہاتھ میں چمڑے کا کوڑا لیے ایک فرشتہ اُن کی نگرانی پر مامور ہے… ابھی کچھ دیرہی گزری تھی کہ اچانک نیلگوں آسمان کی شفّاف فضائوں سے چہچہاتے رنگ برنگ، خُوب صُورت پرندوں کے جھرمٹ میں، حفاظت پر مامور جنّات کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ رنگ و نور سے مزیّن، شاہانہ انداز میں تختِ سلیمانی ؑ جلوہ گر ہوا۔ 

پیغمبرانہ مصروفیات کے سبب اس مرتبہ وقفہ ذرا طویل ہوگیا تھا۔ شیاطین و جنّات نے حضرت سلیمانؑ کو اپنے درمیان دیکھا تو اُن کے کام میں مزید تیزی آگئی۔ آپؑ نے تعمیراتی کام کا جائزہ لیا اور اندازہ لگایا کہ تعمیرو تجدید کا بنیادی کام پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا ہے، جب کہ آرائش و زیبائش کا کام جاری ہے۔ آپؑ نے اطمینان اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور شکرانے کے کلمات ادا کیے اور بیت المقدس میں کھڑے ہوکر دعائیں کیں۔

حضرت سلیمانؑ کی دعائیں:حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ’’جب حضرت سلیمانؑ بن دائودؑ بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے، تو انہوں نے اللہ سے تین چیزیں مانگیں۔ اوّل، ’’مَیں جو فیصلہ کروں، وہ تیرے فیصلے کے مطابق ہو۔“ دوم، ’’مجھے ایسی حکومت دے کہ میرے بعد پھر ویسی حکومت کسی کو نہ ملے۔“ سوم، ’’جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز کے ارادے سے آئے، وہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہوجائے، جیسے اُس دن تھا، جب اُس کی ماں نے اسے جنا تھا۔“ 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”دو چیزیں تو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو عطا فرمائیں، مجھے اُمید ہے کہ تیسری بھی عطا کی گئی ہوگی۔“ (سنن ابنِ ماجہ، 1408)۔ اسماعیل سدی، مفسرِ قرآن و حدیث کی روایت میں یہ بھی ہے کہ بیت المقدس کی تعمیر مکمل ہونے پر حضرت سلیمانؑ نے بارہ ہزار گائے، بیل اور بیس ہزار بکریوں کی قربانی کرکے دعوتِ عام کی اور اللہ کا شُکر ادا کرتے ہوئے عرض کیا ’’اے میرے پروردگار! جو شخص اس مسجد میں داخل ہو، مَیں اُس کے لیے تجھ سے پانچ چیزیں مانگتا ہوں، ایک یہ کہ جو گناہ گار، توبہ کرنے کے لیے مسجد میں آئے، اُس کی توبہ قبول فرماکر گناہ معاف فرمادے۔ دوسری یہ کہ جو شخص کسی خوف وخطرے سے بچنے کے لیے مسجد میں آئے، تو اُسے امن دے کر خطرات سے نجات دلادے۔ 

تیسری یہ کہ جو بیمارشخص اس مسجد میں داخل ہو، اُسے شفا عطا فرما۔ چوتھی یہ کہ جو فقیر اس میں داخل ہو، اُسے غنی کردے اور پانچویں یہ کہ جو شخص اس میں داخل ہو، جب تک وہ اس میں رہے، تُو اپنی نظرِ عنایت و رحمت اُس پر رکھ، بجز اس شخص کے، جو کسی ظلم یا کفر کے کام میں مشغول ہو۔‘‘ (قصص الانبیا، مفتی محمد شفیع، صفحہ 574)۔ بیت المقدس سے مراد مبارک اور پاکیزہ گھر ہے۔ عبرانی زبان میں اسے ’’یروشلم‘‘ اور عربی میں ’’القدس‘‘ کہتے ہیں۔ القدس سے مکّہ مکرّمہ کا فاصلہ تقریباً تیرہ سوکلومیٹر ہے۔ 

یہ مسلمانوں کا قبلۂ اول رہا ہے اور 2ہجری مطابق624عیسوی تک مسلمان بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے رہے ہیں۔ بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے۔ ان ہی پہاڑی سلسلوں میں سے ایک پہاڑی کا نام ’’کوہِ صیہون‘‘ ہے، جس کے نام پر یہودیوں کی عالمی تنظیم ’’تحریکِ صیہونیت‘‘ قائم کی گئی۔ سب سے پہلے حضرت یعقوبؑ نے وحیِ الٰہی کے مطابق مسجد بیت المقدس کی بنیاد رکھی۔ حضرت یعقوبؑ کا دوسرا نام ’’اسرائیل‘‘ تھا۔ اسی نسبت سے آپ کی اولاد ’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائی۔961قبلِ مسیح میں حضرت سلیمانؑ نے مسجد اور شہر کی تعمیر و تجدید کروائی۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی مسجد بیت المقدس کو ’’ہیکلِ سلیمانی ؑ ‘‘ کہتے ہیں۔586 قبلِ مسیح میں ملکِ بابل (عراق) کے بادشاہ بخت نصر نے اس خُوب صُورت شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بناکر عراق لے گیا۔ 

پھر لگ بھگ پچاس سال بعد539قبلِ مسیح میں شہنشاہِ فارس، سائرسِ اعظم نے بابل فتح کیا اور یہودیوں کو بیت المقدس جانے کی اجازت دے دی، جہاں انہوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکلِ سلیمانی ؑ کی دوبارہ تعمیرو مرمّت کی۔ 70عیسوی میں رومی جنرل، ٹائٹس کے ہاتھوں ایک بار پھر یروشلم اور ہیکلِ سلیمانی ؑ تباہ ہوئے۔ 17ہجری بمطابق 639عیسوی میں عہدِ فاروقی میں رومیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ اموی خلیفہ عبدالملک کے دَور میں مسجدِ اقصیٰ کی تعمیر عمل میں آئی۔1099عیسوی میں پہلی صلیبی جنگ کے موقعے پر یورپ کے مسیحیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرکے70ہزار مسلمانوں کو شہید کردیا۔ 1187 عیسوی بمطابق538ہجری تک سلطان صلاح الدین ایوبی نے 16جنگیں لڑیں، یہاں تک کہ بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے آزاد کروالیا، جس کے بعد یہاں 761برس تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔ 

دسمبر1917ء میں پہلی جنگِ عظیم کے موقعے پر انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں کو آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ نومبر 1947ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہود و نصاریٰ کے گٹھ جوڑ سے ایک سازش کے تحت اس علاقے کو فلسطین، عرب اور یہودیوں میں تقسیم کردیا۔ 14؍مئی 1948ء کو یہودیوں نے پہلی صیہونی ریاست، اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا۔ 15؍مئی 1948ء کو پہلی عرب، اسرائیل جنگ چِھڑی، جس میں اسرائیل نے امریکا اور یورپی ممالک کی مدد سے عربوں کے ایک بڑے حصّے پر قبضہ کرلیا، جس کے نتیجے میں 75ہزار فلسطینی بے گھر ہوگئے۔ 5؍جون 1967ء کوعرب ممالک اور اسرائیل میں تیسری بار جنگ کا آغاز ہوا۔

اس چھے روزہ جنگ میں اسرائیل نے پورے فلسطین پر قبضہ کرکے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ یہودیوں کے بقول 70عیسوی میں جنرل ٹائٹس کے ہاتھوں تباہی کے بعد بھی ہیکلِ سلیمانی ؑکی ایک دیوار کا کچھ حصّہ محفوظ ہے۔ جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آکر رویا کرتے ہیں۔ اسی لیے اسے ’’دیوارِ گریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہودی مسجدِ اقصیٰ کو شہید کرکے یہاں ہیکلِ سلیمانی ؑ تعمیر کرنا چاہتے ہیں اور اپنے اسی مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے انہوں نے بیت المقدس کو دارالحکومت بنا رکھا ہے۔

حضرتؑ سلیمان.....موت کا وقت قریب آنے پر: علامہ عماد الدین ابنِ کثیرؒ اپنی شہرئہ آفاق کتاب ’’قصص الانبیاء‘‘ میں مشہور مفسّرِ قرآن، اسماعیل بن عبدالرحمٰن جو ’’سدیؒ ‘‘ کے نام سے مشہور ہیں، ابو مالکؒ اور ابو صالح ؒ کے واسطے سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور دیگر کئی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ بیت المقدس میں کئی کئی ماہ تنہائی میں بسر کرتے تھے، وہ اپنا کھانا وغیرہ بھی ساتھ رکھا کرتے تھے۔ آپؑ کی وفات کے آثار اس طرح شروع ہوئے کہ صبح جب اُٹھتے تو بیت المقدس میں کوئی پودا لگا ہوتا۔ 

آپؑ اس سے پوچھتے ’’تیرا کیا نام ہے؟‘‘ وہ بتادیتا، پھر سوال کرتے ’’تُو صرف درخت ہے یا کسی دوا کے لیے اُگایا گیا ہے؟‘‘ عرض کرتا کہ ’’فلاں دوا کے لیے‘‘ تو آپؑ اُسے اُسی دوا میں استعمال کروالیتے۔ ایک مرتبہ آپؑ نے ایک نیا پودا لگا دیکھا، تو اس سے پوچھا ’’تیرا کیا نام ہے؟‘‘ عرض کیا ’’خروبہ‘‘ یعنی خرابی و ویرانی، میرے اُگنے سے اب اس گھر کی ویرانی ہے۔‘‘ پھر آپؑ نے پوچھا ’’کس گھر کی؟‘‘ عرض کیا، ’’بیت المقدس کی خرابی و ویرانی کے لیے ہوں۔‘‘ آپؑ نے فرمایا ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مَیں ابھی زندہ ہوں اور اللہ پاک اس بیت المقدس کو ویران فرمادے؟ (لہٰذا اب میری موت کا وقت قریب معلوم ہوتا ہے) اور تیرے چہرے پر میری ہلاکت اور بیت المقدس کی ویرانی لکھی ہوئی ہے۔‘‘ پھر آپؑ نے اس پودے کو اکھاڑ کر اپنے ایک باغ میں لگادیا۔ پھر محراب میں داخل ہوئے اور اپنے عصا کے ساتھ ٹیک لگاکر نماز پڑھنے لگے اور اِسی حالت میں وفات پاگئے۔ شیاطینِ جنّات کو آپؑ کی وفات کا علم نہ ہوسکا۔ (قصص الانبیاء، ابنِ کثیرؒ صفحہ، 572)۔

غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے:حضرت سلیمانؑ کی وفات کا تذکرہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے: (ترجمہ) ’’پھر جب ہم نے سلیمان (علیہ السلام) پراجل کا حکم صادر فرما دیا، تو اُن (جنّات) کو اُن کی وفات پر کسی نے آگاہی نہ دی، سوائے زمین کی دیمک کے، جو اُن کے عصا کو کھاتی رہی، پھر جب آپؑ کا جسم زمین پر آگیا، تو جنّات پر ظاہر ہوگیا کہ اگر وہ غیب جانتے تو اس ذلّت انگیز عذاب میں نہ پڑے رہتے۔‘‘ (سورئہ سبا،آیت 14)۔مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ مشہور مفسّر، اسماعیل سدیؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ کی زندگی ہی میں بنی اسرائیل میں یہ خود ساختہ گم راہی شروع ہوگئی تھی کہ نعوذباللہ حضرت سلیمانؑ کا سِکھایا ہوا ’’علمِ سحر‘‘ ہے اور نعوذباللہ، حضرت سلیمانؑ اس جادو ہی کی وجہ سے اتنی بڑی حکومت کے مالک تھے۔

قرآنِ مجید نے بنی اسرائیل کے لگائے ہوئے اس بہتان کی مدلّل تردید کی اور حضرت سلیمانؑ کی پیغمبرانہ عظمت کو نمایاں اور روشن کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت سلیمانؑ کا دامن جادو کی نجاست سے پاک ہے۔ اس کے ساتھ ہی بنی اسرائیل نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ جنات علمِ غیب جانتے ہیں۔ چناں چہ جب حضرت سلیمانؑ کو اس کا علم ہوا، تو انہوں نے شیاطین کے ان تمام نوشتوں کو حاصل کرکے اپنے تخت کے نیچے دفن کردیا، تاکہ جِن و اِنس میں سے کسی کو بھی وہاں تک پہنچنے کی جرأت نہ ہوسکے اور ساتھ ہی یہ فرمان جاری کردیا کہ جو شخص سحر کرے گا یا جنّات کے متعلق علمِ غیب کا عقیدہ رکھے گا، تو اسے اس جرم میں قتل کردیا جائے گا۔ لیکن جب حضرت سلیمانؑ کا انتقال ہوگیا، تو شیاطین نے اس مدفون ذخیرے کو نکال لیا اور بنی اسرائیل میں یہ خود ساختہ عقیدہ عام کردیا کہ نعوذ باللہ، جادو کا یہ علم حضرت سلیمانؑ کا علم ہے اور وہ اسی سے جِن و انس، وحوش و طیور اور ہوا پر حکومت کرتے تھے۔ اس طرح ان شیاطین نے جادو کو پھر بنی اسرائیل میں رائج کردیا۔ (قصص القرآن، سیوہارویؒ، 542/2)۔

حضرت سلیمانؑ کی وفات اور جنّات کی لاعلمی: ڈاکٹر اسرار احمد تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ، جنّات کی نگرانی کے لیے اپنے عصا کے سہارے کھڑے تھے کہ آپؑ کی روح قبض ہوگئی۔ مگر آپؑ کا جسدِ مبارک اسی طرح کھڑا رہا۔ یہاں تک کہ دیمک نے آپؑ کی لاٹھی کو کھوکھلا کردیا۔ اس دوران جنّات آپؑ کی وفات سے بے خبر، کام میں مصروفِ عمل رہے۔ وہ یہی سمجھتے رہے کہ آپؑ اُن کی نگرانی کررہے ہیں۔ جب وہ گرپڑے، تو جنّات پر واضح ہوگیا کہ اگر وہ غیب کا علم جانتے، تو اس ذلّت کے عذاب میں نہ پڑتے۔ (بیان القرآن، 69/6)۔مولانا احمد رضا خان بریلوی ’’کنزالایمان‘‘ میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت سلیمانؑ نے بارگاہِ خداوندی میں دُعا کی تھی کہ اُن کی وفات کا حال جنّات پر ظاہر نہ ہو، تاکہ انسانوں کو معلوم ہوجائے کہ جِن غیب نہیں جانتے۔ 

پھر آپؑ محراب میں داخل ہوئے اور حسبِ عادت نماز کے لیے اپنے عصا پر ٹیک لگاکر کھڑے ہوگئے۔ جنّات حسبِ دستور آپؑ کی خدمت میں مصروف رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ آپؑ زندہ ہیں۔ آپؑ کا عرصہ دراز تک اس حالت میں رہنا، اُن کے لیے حیرت کا باعث نہیں ہوا، کیوں کہ وہ بارہا دیکھتے تھے کہ آپؑ ایک ماہ، دوماہ یا اس سے بھی زیادہ عرصے تک عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ حتیٰ کہ پورے ایک سال تک جنّات کو آپؑ کی وفات کا علم نہ ہوسکا۔ اگرانہیں غیب کا عِلم ہوتا، تو ایک سال تک عمارت کے کاموں میں تکلیف اُٹھاتے نہ رہتے۔ (کنزالایمان، صفحہ614)۔

دُکھ درد، امراضِ موت کے قاصد ہیں: امام نوویؒ نے حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، ’’جتنے امراض، درد اور زخم ہیں، یہ سب موت کے قاصد ہیں۔ انسان کو اُس کی موت یاد دلاتے ہیں۔ پھر جب موت کا وقت آجاتا ہے، تو ملک الموت مرنے والے کو مخاطب کرکے کہتا ہے۔ ’’اے بندئہ خدا! میں نے بہ صُورتِ امراض و حوادث کتنے قاصد بھیجے، تجھے خبردار کرنے کے لیے کہ اب تُو موت کی تیاری کرلے، اب میں تیرے پاس آپہنچا ہوں، جس کے بعد کوئی اور خبر دینے والا یا کوئی قاصد نہیں آئے گا۔ اب تُو اپنے رب کے حکم کو لامحالہ جانے گا، خواہ خوشی سے یا مجبوری سے۔‘‘ (معارف القرآن، 68/7)۔

اور دیمک نے راز فاش کردیا: ابودائود شریف میں حضرت خیثمہؓ سے مروی ہے کہ حضرت سلیمان بن دائودؑ نے ملک الموت سے کہا کہ ’’جب تیرا ارادہ میری رُوح قبض کرنے کا ہو، تو مجھے اس کے متعلق پہلے سے بتادینا۔‘‘ ملک الموت نے کہا ’’ایسا نہیں ہوسکتا کہ مَیں آپ کو اس سے آگاہ کرسکوں، کیوں کہ جب موت کا دن آجاتا ہے، تو مجھے کتاب دی جاتی ہے، جس میں مرنے والوں کے نام درج ہوتے ہیں۔‘‘ دراصل ملک الموت کسی کی موت کا وقت پہلے سے نہیں جانتا۔ جب تک کہ اُسے حکم نہ دیا جائے کہ فلاں کی رُوح قبض کرلو۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زیدؓ سے مروی ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے پاس ملک الموت آئے اور کہا کہ ’’مجھے آپ کی رُوح قبض کرنے کا حکم ملا ہے۔ 

اب آپؑ کے پاس چند گھڑیاں ہیں۔‘‘ حضرت سلیمانؑ نے یہ سُن کر فوری طور پر جنّات کو بلوایا اور اپنے گرد شفّاف شیشے کی ایسی عمارت بنوائی، جس میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ پھرآپ اپنے عصا سے ٹیک لگاکر نماز میں مشغول ہوگئے، اتنے میں وقتِ مقررہ پر ملک الموت داخل ہوئے اور رُوح قبض کرلی۔ شیاطین آپ کو دیکھتے کہ عبادت میں مصروف ہیں اور کام پر لگے رہتے، پھر اللہ نے گُھن لگانے والے کیڑے کو بھیجا، جو لاٹھی کو کھاتا رہا، حتیٰ کہ اندر سے وہ کھوکھلی ہوگئی اور حضرت سلیمانؑ کا بوجھ نہ سنبھال سکی اور وہ گرگئے۔ 

ایک شیطان ہمّت کرکے کسی طرح اندر داخل ہوا اور آپؑ کو اس حال میں دیکھا، تو فوراً باہر نکلا اور سب کو خبر دی کہ حضرت سلیمانؑ تو کب کے وفات پاچکے ہیں۔ لوگوں نے دیکھا کہ لاٹھی کو زمینی کیڑا یعنی گُھن لگ گیا ہے۔ لیکن اب یہ پتا نہیں لگ رہا تھا کہ وفات کو کتنا عرصہ ہوچکا ہے، لہٰذا انہوں نے زمینی کیڑے (دیمک) کو ایک دوسری لاٹھی پر رکھا، جو دن رات اُس کے کچھ حصّے کو کھاتا رہا۔ اس حساب سے پتا چلا کہ آپؑ ایک سال پہلے وفات پاچُکے تھے۔ آپؑ کی بادشاہت چالیس سال تک رہی اور 53سال کی عُمر میں انتقال ہوا۔ (قصص الانبیاء، ابنِ کثیر صفحہ، 573)۔

حاصلِ مطالعہ: اس سبق آموز واقعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موت سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ خواہ وہ کتنے ہی بڑے منصب پر فائز ہو، یا کوئی نہایت اہم اور ضروری کام سرانجام دے رہا ہو۔ وقتِ معیّنہ پر سب کو موت کامزہ چکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کام کسی کی وفات سے رُکتے نہیں۔ اُسے جس سے، جس طرح کا کام لینا ہوتا ہے، وہ لے لیتا ہے اور تمام اسباب و آلات بھی اُسی وقت تک کام کرتے ہیں، جب تک کہ اللہ کو منظور ہو۔ ورنہ سب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ 

دوسرا سبق یہ حاصل ہوتا ہے کہ علمِ غیب، سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا، نہ ہی اللہ کی مرضی و منشا کے بغیر کوئی کام سرانجام دیا جاسکتا ہے۔ چناں چہ وہ تمام بناوٹی، روحانی عامل اور جھوٹے ماہرین، جو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے قابو میں ایسے جنّات و شیاطین ہیں، جو غیب کا علم جانتے ہیں اور معصوم، سادہ لوح انسانوں کو آنے والے خوف ناک حالات بتاکر اپنے دامِ فریب میں پھنساتے ہیں، جان لیں کہ بہت جلد وہ دوزخ کی آگ کا ایندھن بنیں گے۔