• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قصہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ بلقیس کا (دوسری اور آخری قسط)

بلقیس کے قاصد دربار سلیمانی میں: ملکۂ سبا نے کہا کہ ’’یہ طاقت وَر بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں، تو اُسے فتح کرنے کے دوران اُجاڑ دیتے ہیں اور وہاں کے باعزت لوگوں کو قتل و غارت گری کے بعد قیدی بناکر ذلیل و خوار کردیتے ہیں اور یہ لوگ بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی کریں گے۔ چناں چہ مَیں انہیں تحفے بھیج کر دیکھتی ہوں کہ اُن کا کیا ردِّعمل ہوتا ہے؟ اس سے ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ سلیمان (علیہ السلام) کوئی عام، دنیادار بادشاہ ہیں یا اللہ کے نبی، جن کا مقصد اللہ کے دین کا غلبہ ہے۔ اگر انہوں نے ہمارے یہ تحفے قبول نہیں کیے، تو یقیناً اُن کا مقصد دینِ الٰہی کی سربلندی ہے۔ 

اس صورت میں ہمارے پاس بھی اُن کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔‘‘ اسرائیلی روایات کے مطابق، ملکہ بلقیس نے جو تحائف دربار ِسلیمانی ؑ میں بھیجے، اُن میں سونے چاندی کی اینٹیں، قیمتی موتی جواہرات، ایک سو حسین ترین کنیزیں، ایک سو غلام اور ملکہ کی جانب سے ایک خط شامل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ؑ کو ان تحائف کی تفصیل وحی کے ذریعے پہلے ہی بتا دی تھی۔ چناں چہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنّات کو حکم دیا کہ شہر میں داخل ہونے والے راستے پر سونے چاندی کی اینٹوں کا فرش بچھادیا جائے اور راستے کے دونوں جانب سونے کے بنے ہوئے عجیب الخلقت جانور کھڑے کردیے جائیں۔ 

وزراء اور عمالِ سلطنت کی تمام کرسیوں اور فرنیچر کو سونے کا کردیا جائے۔ دربار کو ہیرے جواہرات سے مزیّن کیا جائے۔ غرض، جب ملکہ بلقیس کے قاصد اپنے تحائف لے کر وہاں پہنچے اور انہوں نے یہ سب کچھ دیکھا، تو شرمندہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ مرعوب بھی ہوئے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے قاصدوں سے فرمایا۔ ’’کیا تم لوگ مال و دولت سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ مگر دیکھ لو، جو کچھ میرے اللہ نے مجھے دیا ہے، وہ اس سے بہت زیادہ ہے، جو تمہیں میسّر ہے۔ تمہارے تحفے تمہیں مبارک ہوں۔ انہیں واپس لے جائو۔ ہم اُن پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے۔ جن کے مقابلے کی اُن میں طاقت نہیں ہوگی اور اُنھیں وہاں سے بے عزت کرکے نکال دیں گے اور وہ ذلیل و خوار ہوں گے۔‘‘ (سورۃ النمل، آیات 36-37)۔

ملکہ کی ملک شام روانگی: قاصد اپنے واپس پہنچے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے سخت ترین پیغام کے علاوہ دربارِ سلیمانی کا آنکھوں دیکھا حال ملکہ کے گوش گزار کیا۔ ملکہ بلقیس ایک سمجھ دار، دانا اور جہاں دیدہ عورت تھیں۔ فوراً سمجھ گئیں کہ یہ کوئی عام بادشاہ نہیں، بلکہ واقعی اللہ کے نبی ہیں۔ لہٰذا اپنے ملک کو جنگ و جدل سے بچانے کے لیے انھوں نے بہ نفسِ نفیس حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں حاضر ہوکر اپنی اطاعت کا یقین دلانے کا فیصلہ کیا اور ایک دن اپنے مصاحبین کی ایک جماعت کے ساتھ ملک شام کی جانب روانہ ہوگئیں۔ 

یمن سے ملکِ شام کا فاصلہ طویل تھا۔ ملکہ ابھی راستے ہی میں تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو وحی کے ذریعے مطلع فرمادیا کہ’’ ملکہ بلقیس تمہاری فرماں بردار بن کر حاضر ہورہی ہے۔‘‘ یہ موقع تھا کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ اور اس کے مصاحبین کو مزید شانِ اعجازی دکھانے کا فیصلہ کیا، تاکہ وہ جان سکیں کہ اللہ کے نیک لوگ شان و مرتبے میں کفار سے کہیں زیادہ طاقت وَر اور باکمال ہوتے ہیں۔ (قصص القرآن، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی، جلد 2،صفحہ 523)۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کا تختِ بلقیس حاضر کرنے کا حکم: ’’آپؑ نے فرمایا۔ ’’اے سردارو! تم میں سے کوئی ایسا ہے، جو اُن کے فرماں بردار ہوکر پہنچنے سے پہلے ملکہ کا تخت ہمارے پاس حاضر کردے؟‘‘ جنّات میں سے ایک قوی ہیکل جن نے کہا کہ ’’قبل اس کے آپؑ اپنی جگہ سے اٹھیں، مَیں اُس (تخت) کو آپ کے پاس لاحاضر کرتا ہوں۔ 

میں اس پر قادر ہوں اور ایمان دار بھی ہوں۔‘‘ ایک شخص جسے کتابِ الٰہی کا علم تھا۔ کہنے لگا کہ ’’میں آپ کی آنکھ کے جھپکنے سے پہلے پہلے اُسے آپ کی خدمت میں حاضر کیے دیتا ہوں۔‘‘ جب آپ نے اُسے اپنے پاس موجود پایا، تو کہنے لگے، ’’ھٰذا مِن فضلِ ربّی، یہ سب میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ مَیں شکر گزاری کرتا ہوں یا یاکفرانِ نعمت۔اور جو شکر کرتا ہے، تو اپنے ہی فائدے کے لیے کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ النمل، آیات 39-40) 

وہ اہلِ کتاب کون تھا؟ او وہ کتاب کون سی تھی؟ اور وہ علم کیا تھا، جس کے زور پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ پلک جھپکتے ہی تخت کو حاضر کردوں گا اور ایسا ہی ہوا۔ اس میں مفسّرین کے مختلف اقوال ہیں، جب کہ مذکورہ تینوں سوالوں کی پوری حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ یہاں قرآنِ کریم کے الفاظ سے جو معلوم ہوتا ہے وہ اتنا ہی ہے کہ وہ کوئی انسان تھا، جس کے پاس کتابِ الٰہی کا علم تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کرامت اور اعجاز کے طور پر اُسے یہ قدرت دے دی کہ وہ پلک جھپکتے ہی تخت لے کر آگیا۔ کرامت اور معجزہ نام ہی ایسے کاموں کا ہے، جو ظاہری اسباب اور امورِ عادیہ کے یک سَر خلاف ہوں، اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت ہی سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ 

اس لیے نہ شخصی قوت قابلِ تعجّب ہے اور نہ ہی اس علم کا سراغ لگانے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ظاہری طور پر ایک شخص سے یہ کام لیا، ورنہ حقیقت میں تو یہ مشیتِ الٰہی ہی کی کار فرمائی ہے کہ چشمِ زدن میں، جو چاہے کرسکتی ہے۔ اور حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے تخت کو اپنے سامنے پایا، تو اُسے فضلِ ربّی سے تعبیر کیا۔ (تفسیر، مولانا صلاح الدین یوسف، صفحہ 1053)۔

ملکۂ سبا کا تخت کون لایا؟: مولانا مفتی محمد شفیع تحریر فرماتے ہیں کہ ملکہ بلقیس کے تمام اموال و دولت میں سے تختِ شاہی کا انتخاب شاید اس لیے کیا گیا کہ وہ اس کی سب سے زیادہ محفوظ چیز تھی، جسے سات محلاتِ شاہی کے وسط میں ایک محفوظ محل کے اندر مقفّل کرکے رکھا گیا تھا کہ اس کے اپنے آدمیوں کا بھی وہاں سے گزر نہ تھا۔ اس کا دروازہ یا قفل توڑے بغیر منتقل ہوجانا اور اتنی مسافتِ بعیدہ پر پہنچ جانا، حق تعالیٰ شانہ‘ ہی کی قدرتِ کاملہ سے ممکن ہے۔ 

اقرب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ خود حضرت سلیمان علیہ السلام ہی ہوں، کیوں کہ کتاب اللہ کا سب سے زیادہ عِلم اُن ہی کو حاصل تھا۔ اکثر آئمہ تفسیر قتادہ وغیرہ سے ابنِ جریر اور قرطبی نے اسے جہمور کا قول قرار دیا ہے کہ یہ شخص حضرت سلیمان علیہ السلام کے احباب میں سے تھا۔ ابنِ اسحاق نے اُس شخص کا نام آصف بن برقیا بتایا ہے، اور یہ کہ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا دوست تھا۔ بعض روایات میں اُن کا خالہ زاد بھائی کہا گیا ہے، جنھیں اسمِ اعظم کا علم تھا۔ (معارف القرآن، جلد ششم، صفحہ 585)۔

شیش محل کا طلسماتی حوض: حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکۂسبا کا امتحان لینے کے لیے اُن کے تخت میں کچھ ردوبدل کروادیا۔ جب وہ آئیں، تو اُن سے پوچھا، ’’کیا تمہارا تخت بھی اِسی طرح کا ہے؟‘‘ ملکہ نے کہا۔ ’’یہ تو گویا ہُوبُہو وہی ہے اور ہمیں تو پہلے ہی سے معلوم ہوگیا تھا اور ہم فرماں بردار ہوچکے تھے۔‘‘ (سورئہ نمل42)-ملکہ بلقیس کے آنے سے پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک ایسی عجیب و غریب عمارت بنانے کا حکم دیا، جس میں نہایت شفّاف شیشہ استعمال کیا گیا تھا، اس شیش محل کے صحن میں ایک نہایت شان دار حوض بنوایا، جس کے بہتے پانی میں مچھلیاں اور دیگر آبی جانور بھر کر اُسے شیشے سے پاٹ دیا گیا۔ 

شیشہ اس قدر شفّاف تھا کہ ظاہری نظر میں کوئی پہچان ہی نہیں سکتا تھا کہ پانی کے اوپر شیشے کا فرش ہے۔ حوض کا محلِ وقوع ایسا تھا کہ محل کے اندر جانے کے لیے لامحالہ اُس پر سے گزرنا لازم تھا۔ یہ سب کچھ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام چاہتے تھے کہ ملکہ بلقیس کو نبوت کی اعجاز و شان دکھانے کے علاوہ اُنھیں اپنی عظیم الشّان سلطنت کی ظاہری شان و شوکت کی ایک جھلک بھی دکھادی جائے، تاکہ ملکہ کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی ظاہری و باطنی شان و شوکت اور دینی و دنیوی جاہ و جلال کا اندازہ ہوجائے۔ نیز، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت سلیمان علیہ السلام کو تاریخِ انسانیت میں جو ممتاز مقام عطا فرمایا، وہ قومِ سبا کی ملکۂعالیہ اور مملکتِ یمن کی فرماں روا اور اُن کے مصاحبین اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیں۔

ملکہ بلقیس کا قبولِ اسلام: استقبالیہ تقریب کے اختتام پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس کو محل کے اس مخصوص حصّے کی جانب چلنے کی دعوت دی، جو جنّات کے ذریعے خصوصی طور پر ملکہ کے لیے تیار کروایا گیا تھا۔ ملکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل کے طلسم میں کھوئی ہوئی تھیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُن کی اندرونی کیفیت کا اندازہ کرتے ہوئے اُنھیں ایک بار پھر محل کے اندرونی حصّے میں چلنے کی دعوت دی۔ ملکہ بلقیس دنیا کی عظیم ترین بادشاہت کی حسین ترین ملکہ تھیں، اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس دنیا میں کوئی اور ہستی اُن سے بھی زیادہ جاہ و جلال کی مالک ہوسکتی ہے۔ 

ملکہ حیرتوں کے سمندر میں ڈوبی اپنی نشست سے اٹھیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا اور خود چند قدم پیچھے ہوگئے۔ ملکہ نے آگے بڑھ کر شیش محل کے نفیس و شفّاف فرش پر قدم رکھنا چاہا، لیکن دیکھا کہ صحن میں پانی بَھرا ہوا ہے، جس میں محل کے ستونوں اور میزبانوں کا عکس نظر آرہا ہے، تو ملکہ نے سوچا کہ شاید پانی سے گزر کر آگے جانا بھی اس ملک کی کوئی استقبالیہ رسم ہوگی، چناں چہ اُنھوں نے پانی سے گیلا ہونے سے بچانے کے لیے اپنا دامن اوپر اٹھایا۔ 

حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا۔ ’’یہ ایسا محل ہے، جس کے (نیچے بھی) شیشے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘ وہ بول اٹھیں کہ ’’اے میرے پروردگار! مَیں خود پر ظلم کرتی رہی ہوں۔ اب میں سلیمانؑ کے ساتھ اللہ رب العالمین کی مطیع و فرماں بردار بنتی ہوں۔‘‘ (سورۃ النمل، آیت 44) یعنی جب ملکہ کو فرش کی حقیقت کا علم ہوا، تو اپنی کوتاہی اور غلطی کا بھی احساس ہوگیا اور اُنھوں نے اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا۔ ملکہ بلقیس کے مسلمان ہونے کے بعد کیا ہوا؟ قرآنِ کریم یا کسی مستند حدیثِ مبارکہ ؐ میں اس کی تفصیل نہیں ملتی۔

ملکہ بلقیس نے حضرت سلیمانؑ سے نکاح کرلیا: جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ ملکہ بلقیس کے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد کیا حالات پیش آئے؟ قرآنِ کریم نے اس حوالے سے سکوت کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی شخص نے جب حضرت عبداللہ بن عیینہ سے پوچھا کہ کیا حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کے ساتھ نکاح کرلیا تھا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ’’قرآن نے اس معاملے میں جتنا بیان کردیا ہے، وہ کافی ہے، ہمیں بھی اس کے بعد کی تفتیش میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ 

تاہم، ابنِ عساکر نے حضرت عکرمہؓ سے روایت کیا ہے کہ اس کے بعد ملکہ بلقیس، حضرت سلیمان علیہ السلام کے نکاح میں آگئی تھیں اُنھیں، اُن کے ملک میں برقرار رکھ کر یمن واپس بھیج دیا گیا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام ہر مہینے وہاں تشریف لے جاتے اور تین روز قیام فرماتے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُن کے لیے ملکِ یمن میں تین عمدہ محلات ایسے تعمیر کروادیے تھے، جن کی مثال و نظیر نہیں ملتی۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ (قصص الانبیاء، مفتی محمد شفیع، صفحہ571)۔