• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی معاشرے کا قیام اور اُس کے بنیادی اُصول

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

فطرت اور ضرورت انسان کو اجتماعی زندگی گزارنے پر مجبور کرتی ہے۔ مادّی ضرورتوں کے علاوہ انسان کی کچھ اور ضرورتیں بھی ہیں۔ انسان اپنی اور اپنی نوع کی بقا ءکا آرزو مند ہوتا ہے۔ وہ اخلاقی و روحانی ترقی کی خواہش رکھتا ہے۔ ان میں سے کوئی بات بھی اجتماعی زندگی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بڑی بڑی صلاحتیں ودیعت کر رکھی ہیں، لیکن ان صلاحیتوں کا نشوونما اور ان کا برروئے کار آنا معاشرے کی موجودگی کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمدردی ، سخاوت، فیاضی، محبت ، ایثار ، قربانی اور عدل و انصاف ایسے اوصاف ہیں جو معاشرے کے اندر رہ کر ہی ظہور پذیر ہو سکتے ہیں۔

اسلامی معاشرے کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اور ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ انسان ہونے کی حیثیت سے وہ سب برابر ہیں، اور ان کے درمیان نسل، رنگ ، زبان، قومیت اور وطنیت کی بناء پر جو تعصاب پیدا ہو گئے ہیں۔ اسلام ان سب کو غلط اور جاہلیت قرار دیتا ہے۔ اسلام رنگ نسل، زبان اور وطن کی حد بندیوں کو توڑ کر ایک عالم گیر معاشرے کے قیام کا متقاضی ہے اور یہ اسی طرح ممکن ہے کہ انسانوں کے اندر فکری اور مقصدی وحدت پیدا ہو۔ اس عالمی وحدت کے پیدا کرنے کے لئے اسلام نے زندگی بسر کرنے کا ایک سیدھا اور کامیاب راستہ بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنی اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کی بجائے ایک اللہ واحد کی اطاعت قبول کر لی جائے۔

خاندان ، رشتے دار اور ہمسایےکے قریبی رابطوں کے علاوہ ا نسان کے تعلقات کا ایک وسیع دائرہ ہے جو پورے کرۂ ارض پر پھیلا ہوا ہے۔ ان تعلقات کے قائم کرنے کے لئے اسلام نے جو موٹے موٹے اصول وضع کئے ہیں ،ان کا ماحصل یہ ہے کہ (۱) انسانی جان اور خون محترم ہیں اور ان کا ناحق ضائع کرنا انسانی تمدّن کے خلاف جرم ہے۔ (۲) عورت بچے، بیمار اور زخمی پر دست درازی کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں۔(۳) بھوکا آدمی روٹی کا ، ننگا کپڑے کا، بے گھر گھر کا، زخمی اور بیمار علاج اور تیمار داری کا بہر حال مستحق ہے۔ چاہے وہ دشمن قوم ہی سے کیوں نہ تعلق رکھتا ہو۔ (۴) بندگانِ خدا کے درمیان رنگ، نسل ، زبان، پیشہ، قومیت، وطنیت وغیرہ کی بنا ءپر امتیاز برتنا ناجائز ہے۔ (۵) نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں تعاون اور بدی اور ظلم کے کاموں کے خلاف جہاد انسانی فرائض میں شامل ہے۔ یہی وہ زرّیں اصول ہیں جن پر عمل کرنے سے ایک عالم گیر انسانی معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔

انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا اور اسے انہی صلاحیتوں اور قوتوں کی بناء پر نائب ِخدابھی قرار دیا گیا ہے۔ اس سے انسان کی معاشرتی ذمہ داریاں بھی انتہائی وسیع ہو گئی ہیں اور انسانی میل ملاپ کے علاوہ اس پر دیگر جان داروں حتیٰ کہ بے جان اشیاء کی دیکھ بھال اور ان کے صحیح اور جائز استعمال کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ اسی قسم کی فکر ی وحدت اور مقاصد کا اشتراک ایک ایسے عالمگیر معاشرے کا نظام وجود میں لاسکتا ہے جس سے مختلف انسانی گروہوں کی باہمی کشمکش کا خاتمہ ممکن ہے اور دنیا میں امن و سلامتی کا دور دورہ۔

معاشرے کا یہ اسلامی نظام بالکل فطری اور قدرتی ہے۔ اور تمام دوسرے نظریے جنہیں انسان نے زندگی کی مختلف ضروریات کی تکمیل کے لئے خود وضع کر رکھا ہے اور وہ اسی وجہ سے مصنوعی و بیکار ہیں۔ اور اُن کی بدولت انسانی تہذیب و تمدن حقیقی ترقی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ خاندان، قبیلہ، قوم اور نسل، جغرافیائی جمعیتیں ، معاشی جمعیتیں ، سیاسی اور تمدنی جمعیتیں ، سب غیر فطری اور مصنوعی دھڑے بندیاں ہیں جو ایک اسلامی عالمگیر انسانی اخوت کے قدرتی تصور کے سامنے آتے ہی ماند پڑ جاتی ہیں۔ اللہ کی فرماںبرداری، اطاعت اورخوشنودی کے حصول کے لئے قرآن اور سنت ہی ایسے بنیادی ستون ہیں جو اللہ کے قانون اور اس کی ہدایت کے مطابق انسان کو کامیاب زندگی بسر کرنے اور معاشرے کی تنظیم میں معاون اور مدد گار ہو سکتے ہیں۔

اسلامی نظریے کے مطابق انسان کو اس دنیا میں نائب ِ خدا کا درجہ حاصل ہے۔ اللہ کے خلیفہ کے اس منصب سے صاف ظاہر ہے کہ اسلامی نظریۂ حیات کے مطابق انسان کو وہ تمام قسم کی صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں جن سے کام لےکر وہ صحیح راہ پر گامزن ہوسکتا ہے اور اس طرح انسانیت کی تعمیر اور معاشرے کی فلاح و بہود کا موجب بن سکتا ہے۔اس سے یہ امر بھی واضح ہے کہ انسان کو اللہ نے اس دنیا میں بادشاہت اور جبر و قوت کے استعمال کیلئے نہیں بھیجا ،بلکہ حاکمیت کا مقام صرف اپنے ہی لئے مخصوص فرمایا اور انسان کو نائب اور خلیفہ کا مقام عطا فرما کر اسے اس امر کی ضمانت دی ہے کہ اگر اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرکے اس کے رسولﷺ کے ذریعے بھیجے ہوئے قانون یعنی کتاب و سنت پر عمل کریںتو اسے خلافت عطا فرمائی جائے گی۔ فرمایا کہ ’’اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جنہوں نے تم میں سے ایمان قبول کیا اور عمل صالح کئے کہ وہ ان کو زمین پر خلیفہ بنائے گا۔ (سورۂ نور)اور پھر یہ بھی بتا دیا کہ کن لوگوں کو خلافتِ الٰہیہ کا مستحق سمجھا جا سکتا ہے ‘‘۔ یہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر دنیا میں ہم انہیں حکومت دے دیں تو یہ لوگ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں نیک کام کر نے کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں۔ (سورۂ حج)

اسلامی نظام نے جس طرح اللہ کی اطاعت کے لئے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و اتباع لازم کی ہے اسی طرح رسول اللہﷺ کی اطاعت کے لئے ان کے نائبین یا خلفاء یعنی اولی الا مر کی اطاعت کو ضروری و لازم قراردےکر قرآن میں بیان کر دیا ہے، جس کے مطابق اطاعت ووفاداری کی وابستگی خود اسلام کے ساتھ وفاداری اور وابستگی ہے۔

اجتماعی زندگی کو متمدن اور شائستہ طریقے پر بسر کرنے کے لئے یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ معاشرے کے افراد کے درمیان زندگی کے عام معاشرتی، معاشی، دینی اور سیاسی مقاصد میں یکساں ہم آہنگی ہونی چاہیے، تاکہ افرادِ معاشرہ ایک دوسرے کے تعاون سے ان مقاصد کی تکمیل کر سکیں ۔

اسلام نے زمین و ملک اور وطنیت کی تفریق کو قطعی مٹا دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں گروہ اور قبائل بنا دیا تاکہ تم آپس میں پہچانے جاؤ،مگر درحقیقت اللہ کے نزدیک عزت و تکریم والا وہی ہے جو تم میں سب سے زیادہ اللہ کا حکم ماننے والا اور اس کے قانون کا پاسدار ہے‘‘۔ (سورۃالحجرات)اسلامی قومیت اسلامی معاشرے میں رنگ ، نسل ، زبان، معیشت و سیاست کی مصنوعی تفریقوں کو مٹا کر تمام انسانوں کو برابر کا درجہ دیتی ہے۔اسلامی معاشرے کا قیام اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اسلامی عقائد کو مجلسی، اخلاقی ، سیاسی امور کی انجام دہی میں اپنا دستور العمل بنالیں اور اپنے قومی کردار اور شعار کے لئے اسلام کے انہی معاشرتی اصولوں یعنی عقائد اسلام کو عملاً اپنا رہنمامان لیں۔

ہمیں معاشرے میں موجود ہر طرح کے انتشار اور ذہنی خلفشار کو ٹھکرا کر ایک منظم قوم اور متمدن اسلامی معاشرہ تشکیل دینے کا عزم محکم کرنا ہوگا۔ اسلامی افکار و عقائد میں میانہ روی کے ذریعہ ہمیں اپنی قومی زندگی اور سلامتی کو ایک پیہم اور مستقل جدوجہد کے ذریعے برقرار رکھنا پڑے گا۔ جس میں ہر لحظہ شعور اور تدبرکی بناء پر ہم حالات کو اپنے قومی مفاد کے لئے سازگار بناتے جائیں۔ یہی ایک طریقہ ہے جس سے ہم عصر حاضر کی ناہمواریوں،درپیش مسائل و چیلنجز اور معاشی جکڑ بندیوں کے دباؤ کا مقابلہ کامیابی سے کر سکتے ہیں۔

اقراء سے مزید