• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عصمت اسامہ

تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف اسکول، کالج، یونیورسٹی سےسر ٹیفکٹ یا ڈگری لینا نہیں بلکہ اس کے ساتھ تمیز اور تہذیب سیکھنا بھی شامل ہے ،تاکہ تعلیم سے بہرہ مند ہوکر اپنی معاشرتی روایات اور اقدار کا خیال رکھ سکیں۔موجودہ دور ایٹمی، سائنسی اور صنعتی ترقی کا دور ہے، بنیادی عصری تعلیم، ٹیکنیکل تعلیم، انجینئرنگ، وکالت، ڈاکٹری اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضہ ہے۔ لیکن جہاں جدید علوم ضروری ہیں و ہیں، دینی و اخلاقی تعلیم بھی بے حد ضروری ہے، جس کی وجہ سے عبادت ، محبت ، خلوص، ایثار، خدمتِ خلق، وفاداری اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ جس کے باعث صالح اور نیک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

تعلیم کے حصول کے لئے قابل اساتذہ بھی ضروری ہیں۔ رابرٹ فراسٹ نے کیا خوب کہا تھا ’’میں پڑھاتا نہیں جگاتا ہوں ۔‘‘ استاد وہ نہیں جو محض چار کتابیں پڑھا کر اور کچھ کلاسز لے کر اپنے فرائض سے مبرا ہوگیا بلکہ استادوہ ہوتا ہے جو طلباء و طالبات کی چھپی صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے، انہیں شعور و ادراک ، علم و آگہی نیز فکر و نظر کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔

کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے۔ جن اساتذہ نے اپنی اس ذمہ داری کو بہتر طریقے سے پورا کیا’ ان کے شاگرد وں کی تربیت کا اندازہ ان کی گفتگو سے ہی ہوجاتا ہے۔ اس تناظر میں اگر آج کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ پیشۂ تدریس کو بھی آلودہ کر دیا گیا ہے۔

نظام تعلیم میں فکری تنزل اور اخلاقی کرپشن کے سبب ،اساتذہ کی تقرریاں میرٹ پر نہیں کی جاتیں بلکہ ان کا تقرر زیادہ تر سفارش ،اقربا پروری اور رشوت کی بنیاد پر ہوتاہے۔ جس استاد کی تعیناتی ہی جھوٹ فریب اور دھوکے کی بنیاد پر ہوئی ہو ،وہ طالب علموں کی کیا تربیت کرے گا ؟ اساتذہ کا تقرر نہ صرف میرٹ پر ہونا چاہیےبلکہ ڈگریوں کے ساتھ ان کا رویہ ،اندازگفتگو، لباس، طرز زندگی اور ان کے سابقہ ریکارڈ کو بھی دیکھنا چاہیے۔ ایسے اساتذہ سے طلبہ و طالبات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ زیادہ ہے، جن کا اخلاق و کردار خراب ہو۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں تعلیم کے لیے لڑکیوں کو دوسرے شہروں میں بھیجنا والدین کے لیے مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔ 

ایسے میں جب اسکینڈلز سامنے آتے ہیں تووالدین مزید پریشانی سے دوچار ہو جاتے ہیں۔گزشتہ دنوں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں مبینہ طور پر منشیات اور ممنوعہ ادویات سمیت دیگر غیرقانونی کاموں کا معاملہ سامنے آیا اس کےواقعہ سے ہر ذی شعوردکھ میں مبتلا اور یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا اب اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹیوں میں بھیجیں یا نہیں ۔ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے نام پر بے حیائی و فحاشی کو فروغ دے کر نوجوان نسل کو تباہ کیا جارہا ہے۔

اس سے قبل لاہور کے ایک اسکول میں بھی منشیات کی خریدوفروخت کا انکشاف ہوا تھا ،جب ایک بچی کو اس سے سینئیر طالبات نے صرف اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا تھا کہ وہ منشیات کے استعمال سے انکاری تھی ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کی سپلائی کے پیچھے کون لوگ ہیں جو یہ زہر نوجوانوں کی رگوں میں انڈیل کر قوم کے مستقبل کو خطرے سے دوچار کر رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں کا نظام درست کرنے کے لئے قوم کا ہر فرد اپنی ذمہ داری محسوس کرے اور ایسے گروہوں، مافیا اور طبقے کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے، انہیں بے نقاب کیا جائے جو تعلیمی اداروں میں منشیات فراہم کرنے میں ملوث ہیں۔ متعلقہ حکام کی جانب سے کہا تو گیا ہے کہ، یونیورسٹیوں میں انسداد ہراسانی سیل بنائےجائیں گے، جن کی سربراہ خواتین پروفیسرز ہوں گی۔ ایک اور بات یہ کہ چند جرائم پیشہ افراد کی خاطر پورے تعلیمی ادارے اور ہر طالب علم و اساتذہ پر شک نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایسے گروہوں سے بچنا چاہیے۔ نوجوان بھی تعلیمی اداروں میں اپنی توجہ تعلیم پر مرکوز رکھیں۔