کیا آپ جانتے ہیں کہ پاک فضائیہ کے بہادر ہوا باز ایئر کموڈور ریٹائرڈ عبدالستار علوی کون ہیں؟ اگر نہیں تو آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں۔
یہ وہ نوجوان پائلٹ تھے جنہوں نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری جنگ کے دوران تن تنہا اسرائیلی طیارہ تباہ کر کے دشمن کا غرور خاک میں ملا دیا تھا، جس پر حکومتِ شام نے انہیں سب سے بڑے فوجی اعزاز سے بھی نوازا تھا۔
خیال رہے کہ 1967ء کی 6 روزہ جنگ میں اسرائیل نے مصر کے جزیرہ نما سینا، شام کی گولان کی پہاڑیوں کے تقریباً آدھے حصے اور مغربی کنارے کے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا جو 1948ء سے اردن کے زیرِ انتظام تھے۔
1967ء میں تیسری عرب اسرائیل جنگ کے دوران کھوئے ہوئے اپنے علاقے واپس لینے کے لیے اکتوبر 1973ء میں عرب ریاستوں کے ایک اتحاد نے اسرائیل پر اچانک حملہ کیا۔
1973ء کی جنگ عرب اسرائیل تنازع کا حصہ تھی، اسرائیل کے قیام کے بعد سے اس تنازع پر کئی جھڑپیں اور جنگیں ہو چکی ہیں۔
26 اپریل 1974ء کو عبدالستارعلوی جو اس وقت ایک نوجوان پاکستانی فلائٹ لیفٹیننٹ تھے، انہوں نے جاری لڑائی کے دوران شامی فضائیہ کا مگ 21 لڑاکا طیارہ اڑاتے ہوئے اسرائیلی ایئر فورس کا میراج طیارہ مار گرایا تھا۔
ایئر کموڈور ریٹائرڈ عبدالستار علوی نے ایک انٹرویو کے دوران اسرائیلی طیارہ مار گرانے کا قصہ سناتے ہوئے بتایا کہ جن دنوں عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی تو ہم چند دوستوں نے رضاکارانہ خدمت انجام دینے کا ارادہ کیا اور اگلے دن کمانڈنٹ کے حکم پر پشاور چلے گئے، وہاں پہنچ کر علم ہوا کہ مزید 14 لوگ رضاکار بننے کے لیے پہلے سے موجود تھے۔
عبدالستار علوی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ اس کے بعد ہمیں سیدھا پی ایف فیصل بیس کراچی پہنچا دیا گیا، جہاں سی ون تھرٹی طیارہ تیار کھڑا ہوا تھا، جس میں سوار ہو کر ہم بغداد پہنچے اور پھر عراقی ایئر فورس کے جہاز میں بٹھا کر دمشق، پھر بذریعہ روڈ شامی ایئر فورس کے انڈر گراؤنڈ آپریشن زون لے جایا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ 16 افراد تھے، جن میں سے 8 کو مصر بھیج دیا گیا، باقی 8 شام میں رہے جن میں وہ بھی شامل تھے، ہمیں یہ احکامات تھے کہ پرواز کے دوران اسرائیل کی سرحد سے 10 میل دور رہنا ہے، اسی طرح 26 اپریل 1974ء کو پرواز کرتے ہوئے اسرائیلی سرحد سے واپس بیس کی جانب جا رہے تھے کہ ہم بیس کی طرف واپس مڑے تو ریڈار نے اطلاع دی کہ اسرائیل کے کافی طیارے بہت تیزی سے آ رہے ہیں۔
عبدالستار علوی نے بتایا کہ پیچھے سے آنے والی اسرائیلی طیارے بہت تیزی سے قریب آ چکے تھے، اس دوران ریڈیو جام ہو گیا، میں نے اپنا طیارہ پیچھے موڑا اور اس وقت میں اپنی فارمیشن میں سب سے پیچھے تھا، میں نے نیچے دیکھا تو زمین کی طرف یعنی نیچے سے ایک چمک دکھائی دی، میں نے غور سے دیکھا تو وہ اسرائیلی طیارہ میراج تھا، حالانکہ یہ طیارہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے اور آپ کی طرف آ رہا ہو تو وہ بالکل بھی نظر نہیں آتا، یہ تو اللّٰہ کی مہربانی سے میں نے دیکھ لیا، پھر میں نے اسرائیل کا دوسرا جہاز بھی دیکھ لیا۔
انہوں نے بتایا کہ فارمیشن آگے نکل چکی تھی اور رابطہ منقطع ہو چکا تھا، میرا طیارہ اسرائیل کے دوسرے جہاز کے پیچھے تھا، پہلا اسرائیلی جہاز میرے اوپر آ گیا تھا، میں دونوں سے لڑ رہا تھا، دوسرے طیارے کے پائلٹ کو سمجھ آ گئی کہ اب بھاگنے کے سوا اس کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا تو وہ راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے نیچے کی طرف جانے لگا۔
عبدالستار علوی نے بتایا کہ اس سے مجھے یہ فائدہ ہوا کہ جو علیحدگی یا دوری مجھے چاہیے تھی وہ مجھے مل گئی، میں نے نشانہ لگاتے ہوئے فائر کر دیا اور میزائل جا کر سیدھا اسرائیل کے میراج طیارے کو لگا اور وہ تباہ ہو گیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت تک میرے طیارے کا ایندھن ختم ہو چکا تھا میں مزید کچھ نہیں کر سکتا تھا، لیکن پھر بھی خوش قسمتی یہ تھی کہ دوسرا اسرائیلی طیارہ فوراً بھاگ نکلا۔
ایئر کموڈور ریٹائرڈ عبدالستار علوی کے مطابق اس کارنامے سے خوش ہو کر شام کی حکومت نے انہیں بہت سارے اعزازات سے نوازا، یہاں تک کہ شہریت بھی دے دی، اس کے علاوہ مہنگی گاڑیاں، زمین، پیسے، بچوں کی تعلیم، مطلب بہت سارے انعامات کا اعلان کیا مگر میں نے یہ سب لینے سے انکار کر دیا کیونکہ ہم اس نیت سے نہیں گئے تھے۔