اسلام آباد(رپورٹ :،رانا مسعود حسین) عدالت عظمیٰ میں’’بحریہ ٹائون کراچی سے متعلق سپریم کورٹ ہی کے ایک سابق فیصلے‘‘پر عملدرآمد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران بحریہ ٹائون کے وکیل نے موقف اختیار کیا ہے کہ عدالتی فیصلے کی روح کے مطابق بحریہ ٹائو ن کو 16896 ایکڑاراضی ملنا تھی لیکن اس کی بجائے کل 11747 ایکڑ زاراضی ملی ، پوری اراضی نہ ملنے کی وجہ سے ہم نے اقساط کی ادائیگی روک دی ، فاضل وکیل نے کل الاٹ کی گئی اراضی کے عوض رقم کا دوبارہ تخمینہ لگانے کی استدعا کی، جس پر عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور فریقین کے وکلا ء سے معاونت طلب کرلی کہpro rata (تناسب)کے اصول کے تحت اس مقدمہ میں عدالتی احکامات میں کس حد تک ترمیم ممکن ہے ؟جبکہ عدالت نے فاروق نائیک کو امائیکس کیورائے مقرر کرتے ہوئے انہیں صرف اس حد تک عدالت کی معاونت کرنے کی ہدایت کی کہ عدالت کے حکم کے مطابق بحریہ ٹائون سے جمع شدہ رقم کے خرچ کیلئے چیف جسٹس نے کمیشن کا سربراہ مقررکرنا ہے،اگر چیف جسٹس کمیشن کے سربراہ کی تقرری نہ کرنا چاہیں تو اس صورت میں کیا ہونا چاہیئے ؟عدالت نے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اورسندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو آئندہ سماعت سے قبل بحریہ ٹائون کے تمام رہائشی منصوبوں کی منظوریوں کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم بھی جاری کیا ،عدالت نے اپنے حکمنامہ میں لکھوایا ہے کہ اس مقدمہ میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے پاس جمع کرائی گئی تمام رقم بحریہ ٹائون نے ادا نہیں کی بلکہ پریس رپورٹ کے مطابق دیگر ذرائع سے بھی کچھ رقم (برطانیہ سے ملنے والے 190ملین پائونڈز ) آئی ہے، عدالت نے رقم جمع کرانے والے تمام افراد کوبھی نوٹسز جاری کردئیے ہیں ،عدالت نے قرار دیاہے کہ بحریہ ٹائون کے وکیل کے مطابق اگر بحریہ ٹائون کا بیرون ملک کسی ادارے سے معاہدہ تھا تو اس پر وہ اپنے موکل(بحریہ ٹائون ) سے ہدایات لیکر آئندہ سماعت پر جامع رپورٹ پیش کریں ، دوران سماعت عدالت نے الاٹیوں کے حقوق کے تحفظ کو مکمل طور پر مد نظر رکھنے کی یقین دہانی کے ساتھ الاٹیوں کی فریق بننے کی درخواستیں خارج کردیں ،جبکہ ایک درخواست گزار محمود اے نقوی نے دعویٰ کیا کہ بحریہ ٹائون کے پاس کراچی میں 37ہزار 777ایکڑز اراضی ہے ،جس پر عدالت نے بحریہ ٹائون، حکومت سندھ اور ایم ڈی اے کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے ان الزامات پر جواب طلب کرلیا ، عدالت نے 190ملین پائونڈ زکے معاملے سے متعلق درخواست گزار ڈاکٹر شفیق الرحمان کی درخواست پر قرار دیا کہ اس درخواست کی سماعت درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف دائر چیمبر اپیل کے فیصلے سے مشروط ہوگی،عدالت نے واضح کیا ہے کہ اس مقدمہ کی مقرر تاریخ پرکسی صورت بھی التواء کی کوئی درخواست منظور نہیں کی جائیگی،جو وکیل پیش نہ ہوسکے وہ متبادل کا بندوبست کرکے جائے جبکہ آج کی سماعت سے متعلق تمام احکامات سے متعلق جامع رپورٹیں 6نومبر سے پہلے پہلے جمع کروائی جائیں، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ عدالت نے فریقین کی رضامندی سے فیصلہ کیا اگر اعتراض تھا تو اسی وقت اٹھانا چاہیے تھا انہوں نے کہا کہ کیا بحریہ ٹائون نے خود حکومت سندھ اور ایم ڈی اے کا اختیار استعمال کرتے ہوئے عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد شروع کردیا؟ا س کلچر کو ختم کرنا ہے،پولیس کلچر ،پٹواری کلچر ،پورا معاملہ ایم ڈی اے کے ایک خط پر چل رہا ہے،کہ زمین نہیں ہے ، زمین نہیں ہے تو بحریہ ٹائون نے خود سے ہی کام بھی شروع کردیا جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہوچکا اور ہم عدالت کے فیصلے سے ایک لفظ بھی آگے پیچھے نہیں جائیں گے، بہت خطرناک صورتحال ہے کہ کوئی نہیں بتا رہا ہے کہ ملک میں رائج قوانین پر عملدرآمد ہوا ہے کہ نہیں؟یہ کسی کے ذاتی وسائل نہیں بلکہ، سندھ کی عوام کے وسائل ہیں،دوران سماعت بحریہ ٹائون کے وکیل نے موقف اپنایا ہے کہ بحریہ ٹائون نادہندہ نہیں، فیصلے کے مطابق 16896ایکڑ زمین ملنی تھی لیکن ملی 11747ایکڑ ہے ،ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں ایم ڈی اے نے بتایا ہے کہ اسکے پاس مزید زمین نہیں جبکہ بحریہ ٹائون نے اس صورتحال میں از سر نو قیمت کے تعین کیلئے درخواست دی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بحریہ ٹائون کو 27لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے زمین دیدی گئی جبکہ اسی نوعیت کے ایک اور پراجیکٹ میں کسی اور سوسائٹی کو ایک لاکھ روپیہ فی ایکڑ کے حساب سے سرکاری اراضی دی گئی ،ایک ہی قسم کی تجاورتی سرگرمی کیلئے دو مختلف قیمتوں پر زمین کی فراہمی امتیازی سلوک ہے،کیس کی مزید سماعت8 نومبر تک ملتوی کر دی گئی جبکہ بحریہ ٹائون اسلام آباد، راولپنڈی اور مری کے مقدمات بھی سرسری سماعت کے بعد ایک ماہ کیلئے ملتوی کر دئیے گئے ، کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عملدرآمد بنچ کی تشکیل پر متعدد سوالات اٹھا ئے ہیں جبکہ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور سندھ حکومت بحریہ ٹائون سے ملنے والی رقم کے حصول کیلئے آمنے سامنے آ گئی ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہرمن اللہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے بدھ کے روز کیس کی سماعت کی تو درخواست گزا ر بحریہ ٹائون کے وکیل سلمان اسلم بٹ پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ میرے موکل نے2021 میں سپریم کورٹ میں بحریہ ٹائون کراچی عملدرآمد کیس میں اقساط جمع کرانے میں ایک سال کی رعایت دینے سے متعلق ایک متفرق درخواست دائر کی تھی،جس پرچیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ اڑھائی سال سے آپ کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کیوں نہیں ہوئی تھی؟ کیا بحریہ ٹائون کی اس مقدمہ میں دلچسپی ختم ہوگئی تھی؟انہوں نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے موکل کی جانب سے جلد سماعت کی بھی کوئی درخواست دائر کی گئی تھی؟ تو فاضل وکیل نے جواب دیا کہ جلد سماعت کی کوئی درخواست دائر نہیں کی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ تاخیر سے درخواست مقرر ہونے پر کسی کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں؟ آپ متعلقہ آفس پر الزام لگائیں ہم تحقیقات کرینگے، جس پر فاضل وکیل نے کہاکہ مقدمات عدالت خود مقرر کرتی ہے،اس میں وکیل کا کوئی کردار نہیں ہوتاہے،مقدمات کومقرر کرنا عدالت کا اندرونی معاملہ ہے،میں کسی پر کوئی الزام نہیں لگانا چاہتا،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ حیرت ہے کہ آپ اس حوالے سے کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہی نہیں چاہتے ہیں،فاضل وکیل نے کہا کہ میں کسی پر الزام نہیں لگا سکتا ہوں ،چیف جسٹس نے کہاکہ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے، ہم اپنے طور پر کارروائی کرینگے،فاضل وکیل نے کہاکہ عدالتی فیصلے کے بعد قانونی طور پر بحریہ ٹائون کو 16896 ایکڑ زمین الاٹ ہونی تھی لیکن صرف 11747 ایکڑ زاراضی ملی ، انہوں نے بتایا کہ بحریہ ٹائون کیس میں فیصلے کی تعمیل کے لیے ایک عملدرآمد بنچ بھی تشکیل دیا گیا تھا، جس پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ قانون میں کسی عملدرآمد بنچ کا کوئی تصورموجود ہے؟تو فاضل وکیل نے کہاکہ قانون میں تو عملدرآمد بنچ بنانے کا کوئی تصور نہیں ہے،چیف جسٹس نے ملیر ڈویویلپمنٹ اتھارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے بھی استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے اپنے ہی فیصلے پر عملدرآمد کے لئے کوئی بنچ بنایا جا سکتا ہے؟ جس پر انہوں نے بھی کہاکہ عملدرآمد بنچ کا کوئی قانونی جواز یا حوالہ موجود نہیں،جس پر فاضل چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے جج ،ساتھی ججوں کو اپنے ہی فیصلے پر عملدرآمد کرانے کا حکم دے سکتے ہیں؟کیا عملدرآمد بنچ اگر فیصلے پر عمل نہ کروا سکے تو ساتھی ججوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو گی؟انہوں نے کہاکہ کیا سپریم کورٹ کا ایک بنچ دوسرے کو حکم دے سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان بھی یہی استفسارکیا کہ آپ بتائیں کہ کیا عملدرآمد بنچ بنایا جا سکتاہے ؟تو انہوں نے کہاکہ عملدرآمد بنچ کا تصور بھارتی پریکٹس سے اخذ کیا گیا ،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ بھارتی عدلیہ کا حوالہ نہ دیں اور صرف پاکستان کے قانون کا بتائیں،جس پر انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں متعدد بار عملدرآمد بنچ بنتے رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ تو ہر حکومت کے دور میں ہی ایڈیشنل اٹارنی جنرل رہے ہیں، آپ اپنے تجربہ سے بتائیں کہ کب کب عملدرآمد بنچ بنتے رہے ہیں؟فاضل چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ جو بنچ حکم جاری کرتا ہے وہی اس پر عملدرآمد کیوں نہیں کروا سکتا ہے؟ بحریہ ٹائون کے وکیل نے اپنے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ عملدر آمد بینچ کا اراضی کی قیمت کا تعین ہی غیر آئینی ہے،جس پر چیف جسٹس نے انہیں اس بات سے روکتے ہوئے کہاکہ اس وقت اس عدالت کے سامنے آپکی سابق فیصلے کیخلاف کوئی نظر ثانی کی درخواست نہیں ہے،عملدر آمد بینچ میں آپ کے موکل کی رضامندی سے ہی یہ حکمنامہ جاری کیاگیا تھا ،فاضل وکیل نے کہاکہ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے میرے موکل کو 5 ہزار ایکڑ زاراضی دینے سے انکار کردیا ،اس کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس بحریہ ٹائون کو دینے کیلئے مزید اراضی نہیں ،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ یہ بتائیں کہ کس اختیار کے تحت یہ عدالت بیٹھی ہے،جس پر فاضل وکیل نے کہاکہ یہ عدالت آرٹیکل 184/3 کے تحت اس کیس کی سماعت کررہی ہے ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی متفرق درخواست کی سماعت کی جارہی ہے،اراضی دستیاب ہے یا نہیں؟ ہمیں نہیں معلوم؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ بحریہ ٹائون کا تو موقف ہونا چاہیے کہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کروائیں،انہوں نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ کا رقم کے تعین کا فیصلہ حتمی شکل اختیار کرچکا ،آپ عدالت سے کیا چاہتے ہیں؟ کیا ہم اراضی نہ دینے پر انکے خلاف توہین عدالت کی کاروائی شروع کردیں؟ انہوں نے کہاکہ عدالتی فیصلے کو نیچا نہ دکھائیں، جس پر فاضل وکیل نے کہاکہ میرے موکل بحریہ ٹائون کوپوری زمین نہیں دی گئی ہے،انہوں نے کہاکہ اراضی نہ دینے کی بناء پر نہ تو ہمارا کام ہو رہا ہے نہ دوسری سائیڈ نے اپنا کام کیا ،جس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ جائیں اور جاکر فیصلے پر عملدرآمد کروائیں ،انہوں نے کہا کہ آپکے پاس آپشن دستیاب ہیں ،آپ ان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کرسکتے ہیں ،فیصلے پر عملدرآمد کیلئے عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں،یہیں پر سابق فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کرسکتے ہیں ،یا سول پروسیجر کوڈ کی دفعہ 12(2)کے تحت ان کیخلاف کارروائی کیلئے عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں ،جس پر فاضل وکیل نے کہاکہ میرے موکل کو کوئی آپشن لینے کیلئے مہلت دی جائے،جس پرفاضل چیف جسٹس نے کہاکہ عدالتی حکم کے مطابق ادائیگی نہ کرکے آپ بھی عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرہے ہیں ،جس پر فاضل وکیل نے کہاکہ قانون کہتا ہے میں ادائیگی نہ کروں ،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ ادائیگی کرنے کاحکم عدالت نے جاری کیا ہے، چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کے موکل نے اب تک کل کتنی رقم ادا کی ہے؟ تو فاضل وکیل نے بتایا کہ ہم نے اب تک 65 ارب روپے ادا کردیئے ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اب تک کل کتنی اقساط دی ہیں اور آخری قسط کب ادا کی تھی جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ عدالت کے فیصلے میں لکھا ہواہے کہ دو اقساط نہ دینے کے بعد تیسری قسط پر نادھندہ تصور کیا جائے گا ،فاضل جج نے کہاکہ آپ کے موکل (بحریہ ٹائون) نے عدالتی فیصلے کا احترام نہیں کیا، جس پر فاضل وکیل نے کہاکہ میرے موکل کے تحفظات کا بھی احترام کیا جائے ،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ عملدرآمد کی کاروائی میں جائیں گے تو زمین نہ دینے والے عدالت میں دوڑے چلے آئیں گے،انہوں نے استفسار کیا کہ کیا اس کیس میں بحریہ ٹائون سے کوئی بینک گارنٹی بھی لی گئی تھی یا نہیں ؟تو فاضل وکیل نے کہا کہ نہیں صرف پرسنل گارنٹی ہی لی گئی تھی ،چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ آپ سے پہلے اس کیس میں بحریہ ٹائن کا وکیل کون تھا؟ بحریہ ٹائون ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہیں چاہتاہے ؟ تو فاضل وکیل نے بتایا کہ مجھ سے پہلے بیرسٹر علی ظفر اور اعتزاز احسن اس مقدمہ میں بحریہ ٹائون کے وکیل تھے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کہ اعتزاز احسن جیسے سینئر ترین وکیل اور بیرسٹر علی ظفر کو معلوم نہیں تھا کہ عدالت کے فیصلے میں کیا لکھا جارہا ہے؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ عدالت کے فیصلے میں لکھاہوا ہے کہ اگر اس فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو بحریہ ٹائون اورر دیگر کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کیاجائے گا،انہوں نے واضح کیا کہ عدالت کا فیصلہ تبدیل نہیں ہو سکتا ہے ،آپ زمین نہ دینے والوں کے خلاف نیب ریفرنس کی بات کریں،جس پر فاضل وکیل نے کہاکہ عدالت (عدالتی حکمناموں کے اجراء اور ان کی تعمیل سے متعلق ) آئین کے آرٹیکل 187 کے تحت اس مقدمہ میں انصاف کے تقاضے آج بھی پورے کرسکتی ہے ؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ آئین کا آرٹیکل 187 زیر التوا ء کیس میں استعمال ہوسکتا ہے، یہاں تو معاملہ زیرِ التوا ء نہیں ہے ،حتمی فیصلہ ہوچکا ہے، عدالت کے استفسار پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ بحریہ ٹائون کی متفرق درخواست پر ہمیں کوئی نوٹس نہیں ملا ،انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ ادائیگیوں کے معاملے پر بحریہ ٹائون کی استدعا پہلے ہی مسترد کر چکی ہے، جس پر چیف جسٹس نے سلمان اسلم بٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ سندھ حکومت بھی آپکی مدد نہیں کررہی ،جس پر کمرہ عدالت میں ایک قہقہہ گونجا،چیف جسٹس نے فاضل وکیل سے استفسار کیا کہ کیا بحریہ ٹائون کا منصوبہ مکمل ہوچکا ؟کیا لوگ وہاں پر رہ رہے ہیں ؟تو انہوں نے بتا یا کہ منصوبے پر پچاس فیصد کام ہوچکا ،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اقساط کی نادھندگی پر بحریہ ٹائون کو کسی ادارے نے کوئی نوٹس جاری کیا ہے؟تو فاضل وکیل نے کہاکہ بحریہ ٹائون نادھندہ نہیں، دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ اس مقدمہ میں اصل اسٹیک ہولڈرز سندھ کے عوام ہیں،انہوں نے استفسار کیا کہ بحریہ ٹائون کا منظور شدہ لے آئوٹ یا سائٹ پلان کہاں ہے؟ چیف جسٹس نے کہاکہ جب آپ کے موکل کے پاس اراضی نہیں تھی؟ لے آئوٹ پلان نہیں تھا؟ تو منصوبے پر کام کیسے شروع کیا گیا؟کیا اس منصوبے پر پچاس فیصد کام بغیر منظوری کے ہی کرلیا گیا؟ چیف جسٹس نے فاضل وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کے موکل کدھر ہیں؟ اتنے اہم کیس میں وہ عدالت میں کیوں نہیں آئے ؟اگرآپ ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دیتے تو پھر آپکی درخواستیں خارج ہی ہونگی،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ اگر لے آئوٹ پلان ہی نہیں ہے ،تو پھر بحریہ ٹائون کا سارا منصوبہ ہی غیر قانونی ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ بغیر منظوری کے منصوبے پر کام شروع کرنا غیر قانونی ہے ،جس پر فاضل وکیل نے کہاکہ لے آئوٹ پلان سے متعلق دستاویزات عدالت میں جمع کرئواں گا،چیف جسٹس نے ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ایک مختار کار کے خط کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ کیا سندھ کا ایک مختار کار سپریم کورٹ سے بڑا ہوگیا ،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پربڑی تشویش والی بات ہے، لگتا ہے کہ سندھ حکومت کوئی ایکشن لینے میں بے بس ہے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے ر وسٹرم پر آکر وضاحت کی کہ عدالت کے حکم کی خلاف ورزی پرصوبائی حکومت نے نہیں بلکہ نیب نے بحریہ ٹائون کے خلاف ایکشن لینا ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈوکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ نسلہ ٹاورکراچی کو گرانے کے علاہ سندھ حکومت نے اور کتنی جھونپڑیاں گرائی ہیں ؟جس پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا ،اسی دوران چیف جسٹس نے کہاکہ ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا ایک این او سی ہمارے سٹاف نے گوگل سے نکالا ہے، آپ اپنے موکل سے اس کاغذ کی تصدیق کروا لیں ، یہ کاغذ آپکے حق میں ہے،انہوں نے کہاکہ جب سائٹ پلان منظور ہوگیاہے تو ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آپ کواراضی دینے سے انکار نہیں کرسکتی ہے۔ عدالت کے استفسار پر ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پرہی ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی( ایم ڈی اے) نے سندھ حکومت سے یہ اراضی لی تھی،اور اس کے لئے سندھ حکومت کو ایک ارب روپے کی ادائیگی بھی کی گئی تھی، جسٹس اطہرمن اللہ نے ان سے استفسار کیا کہ کیا سندھ حکومت سے یہ اراضی خریدی گئی تھی یا لیز پر لی گئی ہے؟جس پر فاضل وکیل نے بتایا کہ ایم ڈی اے نے یہ ا راضی لیز پر لی تھی لیکن مدت مقرر نہیں کی گئی ہے،جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیاکہ ایم ڈی اے لیز پر لی گئی اراضی کسی دوسری پارٹی کو کیسے دے سکتی ہے؟جس پر ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ زمین کے عوض رقم نہیں لی گئی بلکہ لیز پر دی گئی، انہوں نے کہاکہ یہ اراضی سندھ حکومت کی تھی اس لئے بحریہ ٹائون سے ملنے والا پیسہ بھی سندھ حکومت کو ہی ملنا چائیے، چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ بحریہ ٹائون سے پیسہ لیکر کریگی کیا؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ عدالت کے فیصلے کے مطابق یہ رقم عدالت کی جانب سے تشکیل دئیے گئے ایک کمیشن کے ذریعے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوگی،انہوں نے کہاکہ فیصلے کے مطابق مجوزہ کمیشن کے چیئرمین کوچیف جسٹس نے نامزد کرنا ہے ،جس پر چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ اگر چیف جسٹس کسی کی بھی نامزدگی نہ کرنا چاہے تو کیا ہوگا؟دوران سماعت چیف جسٹس نے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے وکیل کو کہا کہ زبانی گفتگو کی بجائے سندھ حکومت کو ادائیگی کی تفصیلات فراہم کریں، جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ الیکشن منعقد ہونے والے ہیں،اس حوالے سے منتخب لوگوں کو فیصلہ کرنے دیں کہ اس پیسے کا کیا کرنا ہے،انہوں نے استفسار کیا کہ آئین اور قانون کے مطابق ترقیاتی کاموں کیلئے بجٹ سپریم کورٹ کیسے جاری کر سکتی ہے؟دوران سماعت بحریہ ٹائون کراچی کے الاٹیوں کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے اور مقدمہ میں فریق بننے کی درخواست منظور کرنے کی استدعا کی تو بحریہ ٹائون کے وکیل سلمان اسلم بٹ اور ایم ڈی اے کے وکیل فاروق ایچ نائیک نےمخالفت کرتے ہوئے کہاکہ اس مقدمہ میں انفرادی نوعیت کے معاملات کی سماعت نہ کی جائے ، ماضی میں بھی بحریہ ٹائون کو بہت بلیک میل کیا جا چکا ،چیف جسٹس نے کہاکہ منصوبہ مکمل ہونے کا فائدہ الاٹیوں کو ہی ہونا ہے،انہوں نے کہاکہ الاٹیوں کے حوالے سے عدالتی حکم میں ذکر موجود ہے، اور یہ عدالت الاٹیوں کے حقوق کے تحفظ کو مکمل طور پر مد نظر رکھے گی ،عدالت نے الاٹیوں کی فریق بننے کی درخواستیں خارج کردیں ،دوران سماعت ایک درخواست گزار محمود اے نقوی نے ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ کراچی برانچ رجسٹری سے بیان دیا کہ عدالت میں غلط بیانی کی جارہی ہے ،درحقیقت بحریہ ٹائون کے پاس کراچی میں 37ہزار 777ایکڑز اراضی ہے ،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ وہ تو کہتے ہیں کہ ہمیں صرف 11 ہزار ایکڑز کے قریب اراضی ہی ملی ہے تو انہوں نے کہاکہ اگر میرا موقف غلط ثابت ہو تو مجھے سرعام سزائے موت دے دی جائے ،جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس کیس میں کسی کو پھانسی چڑھانے کیلئے نہیں بیٹھے ہیں،آپ ایسی باتیں نہ کریں ،بعد ازاں عدالت نے درخواست گزار محمود اے نقوی کی درخواست پر بھی بحریہ ٹائون کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان الزامات پر جواب طلب کرلیا ،فاضل عدالت نے مذکورہ بالا احکامات جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت8 نومبر تک ملتوی کر دی جبکہ بحریہ ٹائون اسلام آباد، راولپنڈی اور مری کے عملدرآمد سے متعلق ہی مقدمات بھی سرسری سماعت کے بعد ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دئیے۔ عدالت عظمیٰ میں بحریہ ٹائون کراچی سے متعلق سپریم کورٹ ہی کے ایک سابق فیصلےر عملدرآمد سے متعلق بدھ کے روز ہونے والی کیس کی سماعت کے دوران بحریہ ٹائون کے وکیل سلیمان اسلم بٹ نے اپنے موکل کی جانب سے ایک نئی متفرق درخواست جمع کروائی تھی جس میں استدعا کی گئی کہ بحریہ ٹائون کے ساتھ امتیازی سلوک نہ برتا جائے، اس حوالے سے تفصیلی اور جامع دستاویزات بھی جمع کروائی گئیں، بحریہ ٹائون کراچی کو جو زمین دی گئی وہ دو کروڑ 72 لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے 99 سال کی لیز پر دی گئی اور وہی زمین دوسری ملحقہ سوسائٹیوں بشمول ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کو ایک لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے دی گئی ،انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی بحریہ ٹائون کراچی کو دی گئی اراضی کی قیمت میں فرق زیادتی ہے، ڈی ایچ اے 19640 ایکڑز اراضی الاٹ کی گئی لیکن اگر مالیت کا موازنہ کیا جائے تو بحریہ ٹائون سے 460 ارب روپے کی ادائیگی کا کہا گیا اور ڈی ایچ اے نے ہزاروں ایکڑ زمین زیادہ ہونے کے باوجود صرف 1 ارب 96 کروڑ روپیہ ادا کیے ، مزید براں ڈی ایچ اے سے نہ تو گرائونڈ رینٹ لیا گیا اور نہ ہی مختلف سہولیات سے متعلق رقم ادا کرنے کا کہا گیا اور ڈی ایچ اے کی11640 ایکڑز اراضی کا کیپیٹل گین ٹیکس بھی معاف کیا گیا اور باقی کے 8 ہزار ایکڑز کا بھی کیپیٹل گین ٹیکس بعد میں ادا کرنے کا کہا گیا ہے۔