اسلام آباد (انصار عباسی/اعزاز سید) سائفر کیس میں استغاثہ کے ہائی پروفائل گواہان کے بیانات کو دیکھتے ہوئے عمران خان کیخلاف مبینہ جرم تین وجوہات کی بناء پر مزید سنگین ہو جاتا ہے: اول) خفیہ مراسلہ سیاسی فوائد کیلئے استعمال کرنا، دوم) پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچانا اور سوم) دستاویز کو واپس نہ کرنا یا گم کر دینا۔
ایف آئی اے کی جانب سے جن گواہان کے بیانات قلم بند کیے گئے ہیں ان سے عمران خان کے اس موقف کی نفی ہوتی ہے کہ یہ معاملہ ان کی تبدیلی کیلئے کی جانے والی ایک سازش تھا۔ ساتھ ہی ان بیانات سے اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کی من چاہی تشریح کی تاکہ اسے سیاسی فوائد کے حصول کیلئے استعمال کیا جا سکے اور اپنی حکومت کیخلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کو شکست دی جا سکے۔
ان سب باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سائفر کو سیاست زدہ کرنے کی وجہ سے پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات کو نقصان اور دیگر ملکوں کو فائدہ ہوا۔ یہ بات بھی نمایاں ہوئی کہ سائفر سے نمٹنے کا معاملہ کس قدر حساس نوعیت کا ہے۔
دی نیوز کے پاس دستیاب دستاویزات کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیس کس قدر سنگین نوعیت کا ہے۔
سائفر کیس میں درخواست اس وقت کے سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکر نے دائر کی تھی جبکہ استغاثہ کے گواہان میں سابق وزیراعظم عمران خان کے سیکریٹری اعظم خان، سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود، امریکا میں متعین سابق سفیر اسد مجید خان، اس وقت کے ایڈیشنل سیکریٹری (امریکا) اور فی الوقت متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر فیصل نیاز ترمذی، اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل وزارت امور خارجہ نعمان بشیر بھٹی، جوائنٹ سیکریٹری پی ایم آفس شعیب سرور، جوائنٹ سیکریٹری پی ایم آفس حسیب گوہر، ڈپٹی سیکریٹری پی ایم آفس، ڈپٹی سیکریٹری کابینہ ڈویژن، ڈپٹی ڈائریکٹر سیکریٹ سیکشن پولیٹیکل وزارت خارجہ، ڈپٹی سیکریٹری پی ایم آفس ، ڈپٹی ڈائریکٹر وزارت خارجہ امور اور دیگر افراد شامل ہیں۔
سیکریٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ سائفر کیس میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ایف آئی اے کے پاس شکایت درج کرانے کیلئے حکومت نے انہیں مجاز شخص قرار دیا تھا۔
وزیر اعظم کے اس وقت کے سیکرٹری اعظم خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ عمران خان نے سائفر کا مواد پڑھ کر اسے امریکی اہلکار کی غلطی قرار دیا اور زور دیا کہ اسے اپوزیشن جماعتوں اور ریاستی ادارے کی ملی بھگت کے طور پر ان کے خلاف بیانیہ بنانے کیلئے مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اعظم خان کے مطابق، سابق وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ سائفر ٹیلی گرام کو تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اعظم خان نے کہا کہ عمران خان نے ایک سیاسی بیانیہ بنانے کی بات کی کہ اپوزیشن جماعتیں ان کی حکومت کو ہٹانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ اور امریکا کے ساتھ مل کر سازش کر رہی ہیں۔
اعظم خان نے کہا کہ وزیر اعظم نے ان سے سائفر کی کاپی حاصل کی اور پھر واپس نہ کی۔ اور جب بعد میں جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے سیکرٹری سے کہا کہ ان سے سائفر کھو گیا ہے اور وہ اسے ڈھونڈیں گے۔
اعظم خان نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ سائفر ایک ڈی کوڈ شدہ خفیہ دستاویز ہے اور اس کے مواد کو عوام میں افشاء یا زیر بحث نہیں لایا جا سکتا۔ اس وقت کے سیکرٹری خارجہ سہیل محمود نے اپنے بیان میں کہا کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو اپنے ذاتی اور سیاسی فائدے کیلئے جلسہ عام میں سائفر کا حوالہ دیتا دیکھ وہ حیران رہ گئے اور دونوں نے یہ تک نہ سوچا کہ انہوں نے ملک کے پورے سائفر سیکورٹی سسٹم کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے۔
سابق سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ عمران خان نے سائفر کو عوام کے سامنے لہرایا اور حقیقتاً ایسا کرکے انہوں نے بیرونی ریاستوں کو فائدہ پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ بعد میں انہیں ایڈیشنل سیکرٹری (امریکا) کا نوٹ موصول ہوا کہ کس طرح امریکا نے عوامی ریلی میں عمران خان کے بیانات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ بعد میں کابینہ کے اجلاس میں انہوں نے سائفر کو افشاء کرنے کے نقصانات پر بات کی اور اس میں شامل حساسیت کو اجاگر کیا۔
انہوں نے یہ بھی خبردار کیا کہ کس طرح سائفر کو افشاء کرنے سے پاکستان کے امریکا اور کچھ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو بیرونی ریاستیں پاکستان کے امریکا کے ساتھ خوشگوار تعلقات نہیں چاہتی تھیں انہوں نے اس پورے واقعے سے فائدہ اٹھایا۔
امریکا میں پاکستان کے اس وقت کے سفیر اسد مجید خان نے اپنے بیان میں ڈونلڈ لو سے اپنی ملاقات اور اس کے بعد اسلام آباد میں دفتر خارجہ کو بھیجے گئے مراسلے کے بارے میں بتایا۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے صرف یہ بتایا تھا کہ ان کے اور ڈونلڈ لو کے درمیان کیا بات ہوئی ہے اور اسلام آباد کو بھیجی گئی ان کی بات چیت میں لفظ ’’دھمکی‘‘ یا ’’سازش‘‘ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
اسد مجید نے کہا کہ انہوں نے تجویز دی تھی کہ اسلام آباد اور واشنگٹن دونوں جگہوں پر امریکا کو ڈیمارش جاری کیا جائے۔
انہوں نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاسوں کا بھی حوالہ دیا، جس میں سائفر کیس پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا، اور کہا کہ کمیٹی نے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کیلئے کوئی بیرونی سازش نہیں ہو رہی۔
اس وقت کے ایڈیشنل سیکرٹری (امریکا) وزارت خارجہ فیصل نیاز ترمذی نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکی حکام نے انہیں آگاہ کیا تھا کہ جس انداز سے وزیراعظم عمران خان کے سائفر ماملے سے ڈیل کیا ہے اسے واشنگٹن میں امریکی حکومت نے اچھا نہیں سمجھا۔
ڈی جی وزارت خارجہ نعمان بشیر نے اپنے بیان میں کہا کہ سائفرز خفیہ دستاویزات ہیں اور ان کے غلط استعمال سے غیر ملکی طاقتوں کو فائدہ اور پاکستان کے سائفر سیکیورٹی سسٹم کو نقصان ہوتا ہے۔
وزیر اعظم آفس کے جوائنٹ سیکرٹری (فارن اینڈ سوشل افیئرز ونگ) شعیب سرور نے بتایا کہ پریکٹس کے مطابق وزیر اعظم کو مخاطب کیا گیا سائفر ان کے دفتر پہنچتا ہے لیکن انہوں نے سائفر کو کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی پڑھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سائفر ان کے دفتر واپس نہیں بھیجا گیا۔ کئی دیگر گواہان بھی ہیں جنہوں نے سائفر سے نمٹنے اور اس کی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچائے جانے کے حوالے سے بیانات دیے ہیں۔
سائفرز سے ڈیل کرنے والے وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ وزیر اعظم کیلئے ان کے سیکریٹری کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی وزارت خارجہ کے سائفر سینٹر کو کبھی واپس نہیں کی گئی۔