• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوجی عدالتیں سویلین ٹرائلز کالعدم، عام شہریوں کے تمام کیسز سول عدالتوں میں بھیجے جائیں، سپریم کورٹ کا 4-1 سے اکثریتی فیصلہ

اسلام آباد (رپورٹ:رانا مسعود حسین، ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستیں منظور کرتے ہوئے ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار دیدیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے پیر کے روز 4-1سے اکثریتی فیصلہ سنایا۔جبکہ جسٹس یحییٰ نے اس پر اپنی رائے محفوظ رکھی۔ عدالت عظمیٰ کے مطابق اگر کسی سویلین کا فوجی ٹرائل ہوا ہے تو وہ بھی کالعد قرار دیا جاتا ہے، عام شہریوں کے تمام کیسز سویلین عدالتوں میں بھیجے جائیں، آرمی ایکٹ کا سیکشن 2ڈی ون آئین سے متصادم ہے، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے کا اطلاق 9اور10مئی کے واقعات میں زیر حراست تمام افراد پر ہو گا، بنیادی حقوق کیخلاف کوئی قانون نہیں بنے گا، عدالت نے یہ دروازہ کھولا تو ٹریفک سگنل توڑنے والا بھی بنیادی حقوق سے محروم ہوجائیگا، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آرمی ایکٹ تو فورسز کے اندر کیلئے ہوتا ہے، اسکا سویلین سے تعلق کیسے دکھائینگے۔ تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ کے لارجر بنچ نے نو مئی کی شر پسندی اور دھشت گردی کے و اقعات میں ملوث 103 سویلین ملزمان (پی ٹی آئی کارکنان) کا فوجی عدالتوں سے ٹرائل کرنے کیخلاف دائر درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے سویلین ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دیدیا ہے۔ عدالت نے درخواستوں پر سماعت مکمل ہو نے کے بعد مختصر حکم نامہ جاری کرتے ہو ئے اتفاق رائے سے قرار دیا کہ 9 مئی کی شر پسندی اور دہشت گردی کے و اقعات میں ملوث ملزمان کا ٹرائل عام فوجداری عدالتوں یا خصوصی عدالتوں میں ہوگا۔ عدالت نے قرار دیا کہ انڈر ٹرائل ملزمان یا مستقبل میں جرم کی نوعیت کے حساب سے مقدمات فوجداری عدالتوں میں چلائے جائیں۔ تاہم اکثریتی فیصلے کے تحت عدالت نے آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ون ڈی کی دونوں ذیلی شقوں جبکہ آرمی ایکٹ کی شق 59 (4) کو آئین سے متصادم قرار دیکر کالعدم کردیا ہے، اس حوالے سے عدالت نے چار ایک کے تنا سب سے قرار دیا ہے کہ آرمی ایکٹ 1952کی کلاز ٹو ون ڈی (سب کلا ز ون اور ٹو) اور سیکشن 59کا سب سیکشن چار آئین سے متصادم ہے۔ مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے اٹارنی جنرل کی جانب سے پیش کی جانے والی 103ملزمان کی لسٹ اور اس کے علاوہ اور بھی 9اور 10مئی کے واقعات میں ملو ث ملزمان یا مستقبل میں ان واقعات میں جو ملزمان بنیں گے ان تمام ملزمان کیخلاف مقدمات عام فوجداری عدالتو ں یا خصوصی قوانین کے تحت قائم عدالتوں میں چلا ئے جا ئینگے، عدالت نے قرار دیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ان 103ملزمان یا کوئی دیگر افراد (جن کو ملزمان بنایا گیا ہو) کے خلاف کسی بھی ایکشن یا کارروائی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی، تاہم جسٹس یحییٰ آفریدی نے قانون کو آئین سے متصادم قرار دینے سے متعلق حکم کے حوالے سے اپنا فیصلہ محفو ظ رکھا ہے۔ قبل ازیں عدالت نے سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا اور قرار دیا کہ ممکن ہے مختصر فیصلہ سنا دیں۔ بعد ازاں عدالتی عملے نے بتایا کہ کیس کا مختصر فیصلہ دوپہر 3 بجے سنایا جائیگا۔ قبل ازیں سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے آئینی ترمیم کرنے اور نہ کرنے کے حوالے سے بات کروں گا، میں اس نکتے پر بھی بات کروں گا کہ موجودہ کیس میں آئینی ترمیم کی ضرورت کیوں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کریمنل کورٹس کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے، اب ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے، فوجی عدالتوں کے فیصلے میں وجوہات بھی لکھی جائیں گی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں گزشتہ سماعت کا خلاصہ دوں گا، میں بتاؤں گا کہ موجودہ ٹرائل کیلئے کیوں آئینی ترمیم ضروری نہیں تھی، میں آرٹیکل 175 پر بھی بات کروں گا،لیاقت حسین کیس کا پیرا گراف بھی پڑھوں گا، 21 ویں آئینی ترمیم کے فیصلے کی روشنی میں بھی دلائل دونگا، ممنوعہ علاقوں اور عمارات پر حملے سے متعلق مقدمات میںبھی ملٹری عدالتوں میں جایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں فوجداری مقدمہ کے تمام تقاضے پورے کیے جائینگے، 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل فوجداری عدالت کی طرز پر ہوگا، فیصلے میں وجوہات دی جائیں گی شہادتیں ریکارڈ ہونگی، آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل کے تمام تقاضے پورے ہوں گے، ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیلیں بھی کی جا سکیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ دلائل کے دوران عدالتی سوالات کے جوابات بھی دوں گا، عدالت کو آگاہ کروں گا کہ 2015 میں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں کیوں بنائی گئی تھیں، عدالت کو یہ بھی بتاؤں گا کہ اس وقت فوجی عدالتوں کیلئے آئینی ترمیم کیوں ضروری نہیں ہے۔

kk

اہم خبریں سے مزید