• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ر وشنیوں کا شہر کہلانے والا کراچی اس وقت ڈاکوؤں، اسٹریٹ کرمنلز، منشیات فروش اور منشیات کے عادی افراد کے نرغے میں ہے۔ آئی جی سندھ رفعت مختار راجہ کے واضح احکامات اور کراچی پولیس چیف جرائم کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی ہوا میں اڑا دی گئی ۔ جرائم کی برھتی ہوئی وارداتوں، قتل و غارت گری نے عوام کوخوف میں مبتلاکر دیاہے۔ 

پولیس یومیہ بنیاد پرملزمان کی گرفتاریوں، مبینہ پو لیس مقابلوں میں درجنوں جرائم پیشہ عناصر کوزخمی حالت میں گرفتارکر نےکے دعوے تو کررہی ہے لیکن اس کے بر عکس اسٹریٹ کرمنلزبلاخوف و خطر دندتاتے نظر آتے ہیں، جنھیں کوئی روکنے والا نہیں ہے، ڈاکو راج اور جرائم کی ہوشرباوارداتوں میں کمی کی بجائے دن بدن اضافے نے پولیس کی کارکردگی پرکئی سوالات اٹھادیئے ہیں۔ڈاکوؤں کا ذراسی مزاحمت پر معصوم انسانی جان لے لینا کھیل بن گیاہے ۔ ہر جانب خوف کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ 

دوسری جانب پولیس سے مایوس اورڈاکووں کے ستائے ہوئے شہریوں نےبھی اسلحہ اٹھا لیا ہے۔ڈاکومار بھی رہے ہیں اور مربھی رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایڈیشنل آئی جی کراچی خادم حسین رند عہدہ سنبھالنے کے بعد 2 پولیس اجلاس میں پولیس افسر ان پر واضح کر چکےہیں کہ وہ شہر سےجرائم کاخاتمہ چاہتے ہیں،ان کے احکامات بے سود کیوں ثابت ہورہے ہیں۔

شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی کراچی کو ناکام بنانے کے لیے پولیس میں موجود ساز شی افسران کا ایک گروپ پلاننگ کے تحت پہلے دن سے آئی جی سندھ کے خلاف محترک اورمخفی سازشوں میں مصروف ہے، جرائم کی بیخ کنی اور پولیس میں چپھے ہو ئے سازشی عناصر کا صفایا کر نااب ناگزیرہے ،جس خاتمےکے لئے جنگی بنیاد پر عمل کرنا ہوگا۔ پولیس کےدعوے اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پورے شہرمیں منشیات فروشوں اور منشیات کے عادی افراد کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔

منشیات کے عادی افراد شہر بھر میں لوہے اور تانبے کے دشمن بن گئے ہیں جو کچراچنے والوں کے بھیس میں بڑے بڑے بورے کندھوں پر اٹھائے دن رات سر گرم نظرآتے ہیں اورنشہ خریدنے کے لیے جہاں ان کومطلوبہ اشیاء ملتی ہیں یک لخت چراکربوروں میں ڈال کررفوچکر ہو جاتے ہیں، مختلف علاقوں میں موٹر سائیکلیں، گاڑیوں کی بیٹریاں اور گھروں میں لگی پانی کی موٹریں ان ہی منشیات کے عادی افراد نے چوری کی ہیں۔ 

ان لوگوں نے پاک کالونی ،جہانگیر روڈ کے دنوں اطراف ، تین ہٹی پل کے اطراف، مومن آباد، گارڈن ،پی آئی بی کالونی ،سعید آباد، گندےنالوں ،کھیل کے میدانوں، پارکوں سمیت لیاقت آباد تھانے کے گیٹ کے مقابل لیاقت آبا فلائی اوورز کے نیچے اپنےڈیرے جما رکھے ہیں، جہاں کھلے عام شب و روز منشیات فر وخت کی ہوتی ہے۔ منشیات کے عادی افراد کا ہجوم لگا رہتاہے، یہاں منشیات فروشوں اور منشیات کے خریداروں میں تکرار اور جھگڑے معمول ہیں، قابل ذکر بات یہ ہے کہ لیاقت آبادتھانےکے درجنوں افسران اور پولیس موبائلز اور پیدل معتددبار آمد و رفت جاری رہتی ہے لیکن حیریت اس بات پر ہےکہ ان میں سے کسی کوبھی منشیات کے عادی افراد کا ہجوم نظرہی نہیں آتا۔

پولیس کے دعوؤں کے باوجود ذرا سی مزاحمت پر معصوم شہریوں کاقتل سلسلہ تاحال تھم نہیں سکا۔ شارع فیصل تھا نے کی حدود گلستان جوہر نعمان ایونیو کے قریب موٹرسائیکل سوار ملزمان نے نوجوان سے موٹرسائیکل چھیننے پر مزاحمت پرفائرنگ کرکے 3بہنوں کے اکلوتے بھائی 23سالہ محمد سعد خان ولد انیس اجمل خان کی جان لے لی اور اس کا موبائل فون لے کر فرار ہوگئے، مقتول نارتھ کراچی سیکٹر فائیو بی ون کا رہائشی تھا ، چند عرصے بعد ہی مقتول اور اس کی بہن کی شادی ہونے والی تھی، مقتول سعد انیس خان طالب علم اور بائیکیا چلاتا تھا اور ماموں کے ساتھ فیکٹری میں آوٹ ڈور کا کام بھی کرتا تھا ، قتل کی اطلاع ملنے پر گھر اور علاقے میں کہرام مچ گیا۔ 

مومن آباد تھانے کی حدود اورنگی ٹاؤن نمبر10 میں بینک سے رقم لے کر نکلنے والے نوجوان 22 سالہ ملک ارسلان ولد محمد رمضان کو ڈاکوؤں نےصرف10 ہزار روپے لوٹنے کی خاطر فائرنگ کر کے قتل کر دیا، مقتول ارسلان کی والدہ کا کہنا ہے کہ، ان کا بیٹا گھر سے اے ٹی ایم سے رقم نکلوانے کے لیے یہ کہہ کرگیا آکر ناشتہ کروں گا لیکن خبر ملی کہ ڈاکووں نے اسےقتل کر دیا ، اس شہر میں کوئی سننے والا نہیں ہے، لوگ مر رہے ہیں پولیس کچھ نہیں کر رہی ہے، میرا بیٹا گھر کا واحد سہارا تھا۔ڈاکووں نے دس ہزار روپے کے لئے میرے بیٹے کی جان لے لی۔ مقتول کی لاش گھر پہنچی تو کہرام مچ گیا،علاقہ مکینوں اور عزیزوں کی بڑی تعداد بھی وہاں پہنچ گئی،اس موقع پر ہر آنکھ اشکبار تھی۔

شہر میں ایک دن میں چندگھنٹوں کے دوران 3 پیٹرول پمپ کاا لٹ جا نا پولیس کی اعلی کا رکردگی بین ثبوت ہے ،مسلح ڈاکو تینوں وارداتوں میں مجموعی طور پر 20 لاکھ کیش اور اسلحہ بھی چھین کر لے گئے، وارداتوں میں ملوث ملزمان کی فوٹیجزبھی سامنے آگئیں ،پہلی واردات صبح ساڑھے 6 بجے سکھن تھا نے کی حدود میں ہوئی، جس میں 4 ملزمان نے پہلے پیٹرول پمپ کے سیکیورٹی گارڈ سے اسلحہ چھینا ملزمان نے کیشیر سے 32 ہزار کیش چھینا اور فرار ہوگئے۔

دوسری واردات صبح ساڑھے گیارہ بجے الکرم اسکوائر ایف سی ایریا میں پیٹرول پمپ ملازمین ساڑھے 18 لاکھ بینک جمع کروانے جارہے تھے کہ رانگ وے جاتے ملازمین کے پیچھے2 موٹرسائیکلوں پر 4 ملزمان آئےایک موٹرسائیکل پر پیچھے بیٹھے ملزم نےفلمی انداز میں چھلانگ ماری اور موٹرسائیکل کو بیچ سڑک پر روک کر تمام کیش چھینا اور فرار ہوگئے، جبکہ تیسری واردات مومن آباد فقیر کالونی فلنگ اسٹیشن پر کی گئی ایک موٹرسائیکل پر2ملزمان آئے ایک مسلح ملزم نے لوٹ مار شروع کی ایک ہی ملزم نے دونوں کشیئرز سے کیش چھینا اور بآسانی فرار ہوگئے، فوٹیجزمیں واردات میں ملوث ملزمان کےچہرے واضح دیکھے جاسکتے ہیں۔

شاہراہ نور جہاں تھا نے کی حدو نارتھ ناظم شادمان ٹاؤن نمبر ایک کے ڈی اے فلیٹ میں واقع نجی بینک میں 4 مسلح موٹر سائیکل سوار ڈاکو بینک سے87 لاکھ روپے لوٹ کر ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے بآسانی فرار ہوگئے، مسلح ڈاکووں نے بینک کے سیکیورٹی گارڈ کو تشدد کا نشانہ بنایا اورسیکیورٹی گارڈ کا اسلحہ بھی چھین کر لے گئے، بعدازاں ڈاکو وں نےکچھ دور جاکر اسلحہ پھینک دیا۔

راشد منہاس روڈ پر6 مسلح ڈاکو وں نے کیش وین لوٹنے کی کوشش میں مزاحمت کرنے پرفائرنگ کر کے کیش وین کے سکیورٹی گارڈ اور ڈرائیور زخمی کوزخمی کردیا،جبکہ سکیورٹی گارڈ کی فائرنگ سے ایک ڈاکو بھی زخمی ہوگیا۔ زمان ٹاون تھانے کی حدود میں ہیئرکٹنگ کی د کان میں 2ڈاکواؤں نے اسلحہ کے زور پر د کان کے مالک کی دن بھر کی کمائی چھین لی اور د کان میں موجود کسٹمرز سے بھی نقدی اور موبائل فونز چھین کر بہ آسانی فرار ہوگئے۔سمن آباد تھا نے کی حدود انچولی کی گلی میں موٹرسائیکل سوار ملزم خاتون سے پرس چھین کر فرار ہوگیا ،واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی۔

پولیس سے مایوس اور ڈاکووں کے ستائے ہوئے شہریوں نےاپنی مدد آپ کے تحت ڈاکووں کے خلاف اسلحہ اٹھا لیا ،3مختلف علاقوں میں شہریوں نے فائرنگ کرکے لوٹ مار کر نے والے4ڈاکووں کو زخمی کر ڈالا 2 ڈاکو موقع سے فرار بھی ہو گئے۔ زمان ٹاؤن تھانے کی حدود کورنگی ناصر جمپ ،لکھنو سوسائٹی پیٹرول پمپ کے قریب موٹر سائیکل سوار3 اسٹریٹ کریمنلز رکشہ روک کر اسلحہ کے زور لوٹ مار کررہے تھے کہ شہری نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائرنگ کرکے ایک ڈاکو کو زخمی کر دیا، جبکہ2 ڈاکوفرار ہو گئے ، پولیس نےموقع پر پہنچ کر زخمی ڈاکو22 سالہ توقیرولدطاہر کو حراست میں لے کرجناح اسپتال منتقل کیا۔

دوسری جانب بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 4D سعید آباد میمن کالونی میں بیکری میں مسلح ڈکیتی کی واردات کے دوران ساتھ ہی واقع دودھ کی دکان کے مالک سجاد نے ڈکیتی واردات دیکھ کر اپنے اسلحے سے فائر نگ کر کے 2ڈاکووں عبدالرحمان اور رشید کو زخمی کردیا، جبکہ ڈاکووں نے بھی دودھ کی دکان کے مالک پر4 فائر کیے، تاہم وہ خوش قسمتی سے محفوظ رہا ۔عزیزآباد تھا نےکی حدود بھنگوریہ گوٹھ مکان نمبر 235 بلاک نمبر2 بلوچ مسجد کے قریب ڈکیتی کی کوشش کے دوران شہری وہاب رشید نے اپنے لائسنس یافتہ پستول سے فائرنگ کر کے ایک ڈاکو حارث ولد رفیق کو زخمی کر دیا ،جبکہ ملزم سلیم فرار ہو گیا۔

کراچی چند ماہ کے دوران 12 نوجوان لڑکیوں کو مبینہ قتل کرکے دفنائے جانے کے انکشاف سے عوام میں تشویش کی لہردوڑ گئی ہے،سوال یہ پیداہو تاہے کہ ڈانس پارٹیز میں 12 لڑکیوں کی ہلاکت ہو گئی ، پولیس کیا کرتی رہی ، انتہائی باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پوش علاقوں کے بنگلوں اور فارم ہاوسز میں ہو نے والی ڈانس پارٹیز میں لڑکیوں کو لے جایا جاتا ، جہاں جنسی ادویات کی اوور ڈوز سے ان کی موت ہوجاتی ، فارم ہاوسز کا عملہ لاشیں خفیہ طریقے سے ٹھکانے لگا دیتا ، اس حوالےسےایس ایس پی ایس آئی یو کا دعوی ہے کہ سچل میں 27 ستمبر اور جناح اسپتال میں 24 جون کو لڑکیوں کی موت بھی پارٹیز میں نشے کی اوور ڈوز کی وجہ سے ہوئی ہے۔ 

سچل سے کمبل میں لپٹی لڑکی کی لاش نے کئی راز کھول دئیے۔ قتل میں ملوث ملزمان کی گرفتاری سے کیس سامنے آگیا ، فارم ہاوس میں لڑکی کی ہلاکت پر سرکاری افسر نے لاش کو کمبل میں دبا کر ٹھکانے لگانے کا مشورہ دیا، ایس ایس پی ایس آئی یو کا کہنا ہے کہ جر م چھپانے اور ڈانس پارٹیوں میں فحاش نیٹ ورک چلانے کے الزام میں سرکاری افسر کو شامل تفیش کیا جائے گا، افسر کے فارم ہاؤس کو سیل کردیا گیا، مینجر ، خاتون نائکہ سمیت 4 ملزمان گرفتار ہیں، تفیش کے دوران انکشاف ہوا کہ12 نوجوان لڑکیوں کی لاوارث لاشیں ملیں۔ 

 پولیس، گڈاپ میں کسی بھی کمرشل ڈانس پارٹی کا ریٹ ایک رات کا 50 سے 60 ہزار مبینہ طور پر پولیس وصول کرتی ہے، ایسی نوبت ہی کیوں آئی کہ 12 لڑکیاں ہلاک ہوگئیں، جنہیں خاموشی سے دفنا بھی دیا گیا، پولیس کو کیسے خبر نہیں ہوئی، سوال یہ ہے کہ ڈانس پارٹیوں کی اجازت ہی کیوںدی جاتی ہے، اگر نہیں دی تو بلا اجازت اس طرح کی پارٹیاں کیوں ہورہی ہیں۔ کیا پولیس کا کوئی اعلی افسر اس کا جواب دے گا؟

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید